آج کا دور سائنسی دور ہے‘ سائنس کی نت نئی ایجادات انسان کو حیران کیے دیتی ہیں۔ سائنس کی کرشمہ سازیاں ہر میدان میں نمایاں ہیں لیکن جہاں سائنس نے ہمارے لیے بہت سی سہولیات پیدا کی ہیں‘ وہیں بہت سی پیچیدگیاں بھی پیدا کی ہیں۔
مثال کے طور پر زراعت ہی کو لیجئے جہاں سائنس کی وجہ سے ہماری اوسط پیداوار میں اضافہ ہوا ہے ‘ وہیں کھاد اور سپرے کے بے جا استعمال نے ہماری زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اسی طرح صنعت کو لیجئے جہاں کارخانے نت نئی اشیائے ضرورت ڈھیروں کے حساب سے بنارہے ہیں‘ وہیں ان کارخانوں اور فیکٹریوں کا فضلہ اور کیمیکلز نے زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔ انسان کو محفوظ سے محفوظ بنانے کیلئے آلات حرب بنائے جارہے ہیں لیکن ایٹم بم جیسی ایجادات سے انسان بجائے محفوظ ہونے کے مزید غیرمحفوظ ہوگیا ہے کیونکہ یہ مواد ذراسی کوتاہی کرنےسے انسانی نظام کو درہم برہم کرنے کیلئے کافی ہے۔ کمپیوٹر کی ایجاد جہاں ایک نعمت ہے وہیں نوجوانوںمیں بے راہ روی پھیلانے میں بھی نمبرون ہے۔
بالکل اسی طرح طب جدید یعنی ایلوپیتھی طریقہ علاج سائنس کی کرشمہ سازیوں میں سے ایک ہے۔ اس کی بظاہر فوری اثرا دویات انسان کو اپنا گرویدہ کردیتی ہیں لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس کے مابعد اثرات نئے امراض کو جنم دے دیتے ہیں تو انسان کی آنکھ کھلتی ہے کہ خدایا یہ کیا ہوگیا؟ مثال کے طور پر ایلوپیتھی میں آپریشن کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے بس ذرا سی تکلیف کیا ہوئی فوراً مریض کو آپریشن کا مشورہ داغ دیا جاتا ہے۔ چاہے مرض دوائی سے قابل علاج ہی کیوں نہ ہو مگراکثر نام نہاد مسیحاؤں کے پاس پیسے بٹورنے کا اور حل بھی تو نہیں ہوتا۔
پچھلے دنوں کی بات ہے میں ملتان اپنے دوست سے ملنے گیا اور باتوں باتوں میں آپریشن کی بات چل نکلی‘ وہ کہنے لگا کہ ہمارے ایک دوست کو ناف کے دائیں جانب شدید درد ہوا‘ ہم اس کوفوراً ایک پرائیویٹ کلینک میں ڈاکٹر کے پاس لے گئے‘ ڈاکٹر نے چیک کرنے کے بعد کہا کہ اس کو اپنڈکس ہے‘ فوراً آپریشن کرائیں ورنہ مریض کی جان جاسکتی ہے۔ خیرمرتا کیا نہ کرتا والی بات کے مصداق فوری طور پررقم کا بندوبست کیا اور آپریشن کر ڈالا۔ مریض کو تین دن بعد گھر لے آئے۔ حالات معمول پر آگئے۔ درد رفوچکر ہوگیا اور ہم فکر سے آزاد ہوگئے۔ خدا کا کرنا ایسا ہو کہ وہی دونوں دوست اپنی موٹرسائیکل پر نشتر روڈ کسی کام سے گئے تو اس مریض کو پھر ناف کے قریب یعنی اپنڈکس والی جگہ پر درد ہوا۔ اس نے کہا کہ چلو نشتر ہسپتال سے ہی چیک اپ کروا لیتے ہیں۔ ڈاکٹرصاحب کے پاس گئے انہوں نے چیک کرنے کے بعد کہا کہ بھائی ان کو اپنڈکس کا درد ہے‘ ہم نے بہت کہا کہ ڈاکٹر صاحب اپنڈکس کاپہلے سے آپریشن ہوچکا ہے اب جبکہ اپنڈکس والی نالی ہی موجود نہیں تو اپنڈکس کہاں؟ مگر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ فوراً ایکسرے کراکے لائیں‘ پھر بتاؤنگا۔ لاچار ایکسرے کرایا‘ ایکسرے دیکھ کر تو ہماری سیٹی ہی گم ہوگئی کہ اپنڈکس جوں کی توں موجود ہے اور پھولی ہوئی ہے‘ ہم نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ اصل ماجرا کیا ہے جبکہ آپریشن کا نشان تو بالکل واضح طور پر اب بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بغور دیکھنے کے بعد بتایا کہ بلیڈ سے جلد کے اوپر کٹ دیکر سی دیا گیا ہے۔ یہ کٹ زیر جلد ہوا ہی نہیں۔ بس مریض کو درد روکنے والی دوائیں دیکر فارغ کردیا گیا ہے جس سے وقتی طور پر افاقہ محسوس ہوا ہے۔ لہٰذا اب آپریشن کرنا پڑے گا۔ خیر ہم نے آپریشن کرایا کیونکہ مجبوری تھی اور ٹھیک پانچ دن بعد ہم نے اُس نام نہاد جعلی ڈاکٹر کا بھی آپریشن کیا اور اسے وہاں سے کلینک بند کرنے پر مجبور کردیا اور اس سے اپنے پیسے بھی واپس لے لیے۔
تو جناب یہ ہے اصل چہرہ۔۔۔نام نہاد مسیحاؤںکا۔۔۔ یہ ہر علاقے میں کہیں نہ کہیں اپنی دکان چمکارہے ہیں اور اصل مسیحاؤں کا نام بھی بدنام کررہے ہیں۔ان لوگوں کے دل میں خوف خدا کا ذرہ بھی نہیں ہے۔
یقین جانیے! یہ لوگ نوے فیصد آپریشن بلاوجہ کرتے ہیں صرف دس فیصدکیسز میں آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح آپریشن کے بعد بعض اوقات اتنی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ مریض کوجان کے لالے پڑجاتے ہیں اور اگر وہ جانبر ہو بھی جائےتو ساری زندگی سسک سسک کرگزارتا ہے۔ اسی طرح اسے مہینوں دوائیاں کھانی پڑتی ہیں۔کچھ ہمارے ڈاکٹرز حضرات مریض کو ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ مختلف لیبارٹریوں کے ٹیسٹ بھی آپس میں نہیں ملتے ‘ کوئی کچھ لکھتا ہے‘ دوسرا کچھ‘ یوں مریض ساری مختلف ادویات کھا کھا کر گزارہ کرتا ہے۔
آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ا یسا کیوں ہے اور میڈیکل شعبہ میںادویہ انحطاط کیوں ہے؟ جدید ترین علاج دریافت ہونے کے باوجود کلینک اور ہسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے کیوں ہیں؟نیلے پیلے کیپسول اور گولیاں بے دھڑک کیوں استعمال ہورہے ہیں۔ اس کا جواب شاید اتنا مشکل بھی نہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے قدرت خداوندی کو بھلا دیا ہے اور ہم فطرت سے بہت دور ہوگئے ہیں۔ ہم نے ہر چیز مصنوعی اختیار کرلی ہے قدرتی چیز سے دور ہوگئے ہیں۔فطری طریقہ علاج یعنی دیسی طریقہ علاج کو چھوڑ دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید بازاری قسم کے نسخہ بار حکیم اور عطائی حضرات بھی ہیں جنہوں نے اس شعبے کو بہت بدنام کردیا ہے ان کے پاس تشخیص تو ہوتی نہیں بس علامت دیکھی اور دوا دے دی۔ دوسری وجہ کشتوں کابے دریغ استعمال بھی عوام کو متنفر کررہا ہے اور تیسری اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دیسی طریقہ علاج کو جدید دور کے مطابق ہم آہنگ نہیں کیا گیا۔ اس پر جدید ریسرچ نہیں کی گئی‘ بس روایتی نسخوں پر ہی اکتفا کیا جارہا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ اس کو جدید دور کے مطابق ڈھالا جاتا تاکہ یہ فطری اور سستا طریقہ علاج عوام کی بہبود میں اپنا فعال کردار ادا کرسکتا۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہم ابھی تک طب یونانی کا کوئی مصدقہ فارما کوپیا نہیں بناسکے۔ جہاں جہاں دیسی طریقہ علاج رائج ہیں لوگوں کے پاس بعض امراض کے تیربہدف نسخہ جات موجود ہیں مگر وہ دوسرے طبیب کو دینے پر تیار نہیں اور اس کو ایسے چھپاتے پھرتے ہیں جیسے ناپاک کپڑے کو۔ حالانکہ باقاعدہ مہم کے ذریعے ان کو قائل کرکے نسخے لیے جاسکتے ہیں مگر شاید ہم خود بھی اس کیلئے مخلص نہیں۔
جہاں تک میرا مشاہدہ ہے میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تحریک کے مطابق دی گئی صرف غذا ہی مرض پر قابو پانے کیلئے کافی ہے جبکہ فرنگی طب میں غذا کا تصور سرے سے ہے ہی نہیں۔ وہ صرف اور صرف دوا پر زور دیتی ہے اوراینٹی بائیوٹک اور انٹی سپیٹک دواؤں کے علاوہ مسکن اور نشیلی دواؤں سے مریض پر یلغار کردی جاتی ہے اور ایک دن میں دس دس بارہ بارہ کیپسول اور گولیوں کے علاوہ مختلف سیرپ مریض کے حلق میں انڈیلنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر نتیجہ پھر بھی ڈھاک کے وہی تین پات والا نکلتا ہے اور
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔۔۔
کے مصداق مریض بجائے شفایاب ہونے کے مزید پیچیدہ بیماری سے دوچار ہوجاتا ہے۔ میں نے بارہا ایسے مریض دیکھے ہیں جو ایک مرض کا علاج کراتے کرتے دوسری مرض بھی تحفہ میں لے آتے ہیں مثلاً ایسے مریض کوجوڑوں کا درد تھا ان کو طب فرنگی والوں نے مسکن دوائیں دے دے کر جگر کا مریض بنادیا اس کے علاوہ السر معدہ کی شکایت بھی عام دیکھی گئی اسی طرح جن مریضوں کو اینٹی ملیرئیل دوا دی گئی ان میں بھی اسی فیصد مریض امراض جگر کے متاثر دیکھے گئے ۔
جبکہ طب یونانی یعنی دیسی طریقہ علاج ان کے جراثیمی قانون کو تسلیم تو کرتا ہے مگر یہ سمجھتے ہوئے کہ جس جگہ جراثیم پیدا ہوں گے پہلے وہاں تعفن یا عفونت کا ہونا ضروری ہے یعنی ڈائریکٹ کہیں بھی جراثیم پیدا نہیں ہوجاتے بلکہ ان کے پیدا ہونے کے اسباب کچھ اور ہوتے ہیں اسی طرح جراثیم پیدا ہوتا جس سبب سے ہو اس سبب کو اگر ختم کردیا جائے تو جراثیم خودبخود ختم ہوجائیں گے۔ اسی لیے دیسی طب میں اخلاط کو مدنظر رکھ کر علاج کیا جاتا ہے اگر عفونت زدہ خلط کا علاج کرلیا جائے تو اس سے پیدا ہونے والے تمام امراض کا خاتمہ ہوجائے گا اور مریض تندرست ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ طب یونانی فطری اور سستا ترین طریقہ علاج ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں اس کا وجود نعمت باری سے کم نہیں اور سب سے بڑی بات کہ دیسی ادویات کے سائیڈ ایفکٹس کوئی نہیں ہیں۔ صدیوں پہلے سے مروجہ دیسی مرکبات آج بھی اسی طرح مستعمل اور مؤثر ہیں۔
دیسی طریقہ علاج فطرت کے قریب ترین طریقہ علاج ہے‘ اسی لیے اس میں شفائی اثرات بہت زیادہ ہیں۔ ملکی اور مقامی سطح پر بیشتر جڑی بوٹیوں میں خداوند عالم نے بے پناہ شفائی اثرات رکھے ہیں اگر مرض کو سمجھ کر دیسی دوا دی جائے تو پہلی خوراک ہی اپنا اثر دکھاتی ہے۔
آنحضرت ﷺ جو کہ طبیب اعظم ہیں ان سے کئی روایات اور احادیث منقول ہیں جن میں آپ ﷺ نے دیسی جڑی بوٹیوں اور گھریلو استعمال میں ہونے والی غذاؤں مثلاً انڈا‘ شہد اور زیتون جیسی چیزوں کو مختلف امراض میں استعمال کرایا اور اس طریقہ علاج کے فطری ہونے پر مہرثبت کرتے اور اپنی مرض کا کوئی پہلو اس سے چھپا کر نہ رکھے اور معالج کی ہدایات کے مطابق غذا اور دوا کا استعمال کرے تویقیناً شفایابی اس کا قدم چومے گی۔
Copid
No comments:
Write comments