ایک گزارش ہے کہ
یہ کالم پڑھنے سے پہلے سیکولرز اور لبرلزحضرات’’ہاجمولہ‘‘ یا ہاضمہ والی کوئی بھی گولی یا ٹافی منہ میں رکھ لیں …
کیونکہ ہو سکتا ہے یہ کالم پڑھنے کے بعد سینے میں جلن یا بد ہضمی ہو سکتی ہے…
پہلے ہی مطلع کر دیا گیا ہے…
یہ نہ ہو کہ ہم پر ’’ فریڈم آف سپیچ‘‘ کے اس زمانے میں بھی ہتک عزت کا الزام لگ جائے…
یوں
تو دنیا میں ’’سانپوں‘‘ اور ’’لبرلز‘‘ کی بے شمار اقسام پائی جاتی ہیں مگر
دونوں میں فرق یہ ہے کہ تمام ’’سانپ‘‘ زہریلے نہیں ہوتے اور لبرلز اوپر
سے نیچے تک زہر میں بجھے ہوئے ہوتے ہیں…
یہاں ہمارا موضوع ’’سانپ‘‘ نہیں بلکہ’’لبرلز‘‘ ہیں۔
آج کل’’لبرلز‘‘کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ایک باہر کا بنا ہوا’’اصلی‘‘یا’’اوریجنل‘‘ دوسرا یہاں کا بنا ہوا’’نقلی’’ یا ‘‘دو نمبر‘‘۔
’’نقلی
لبرلز‘‘ ’’دیسی ساختہ‘‘ ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر انہیں’’دیسی لبرلز‘‘ بھی
کہا جاتا ہے لیکن چونکہ اس میں لفظ ’’دیسی‘‘ استعمال ہوتا ہے اور ’’دیسی
لبرلز‘‘ کو ہر اس نام، چیز اور جگہ سے نفرت ہوتی ہے جس میں لفظ’’دیسی‘‘
استعمال ہو اس لیئے یہ خود کو’’دیسی لبرلز‘‘ کہلوانا پسند نہیں کرتے. جبکہ
ایک تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ’’دیسی لبرلز‘‘ خود کو ’’امریکی
سنڈی‘‘ ’’فارمی لبرلز‘‘ اور’’بے غیرت برگیڈ‘‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ مگر
دیسی لبرلز کے لیئے آج تک کا سب سے مناسب نام جو دریافت ہوا ہے وہ’’لنڈے
کے انگریز‘‘ ہے۔ تو آج ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ یہ’’لنڈے کے انگریز‘‘
کون کیوں کب اور کیسے ہوتے ہیں۔ چونکہ بات ہونے کی چل رہی ہے اس لیئے ایک
اور شعر ملاحظہ فرمائیں۔
پیدا ہوا لبرل تو شیطان نے یہ کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہوگئے۔
ماہرین کے نزدیک ’’لنڈے کا انگریز‘‘ ہونا ایک ’’مینٹل ڈس آڈر‘‘ ہے۔ وہ لڑکا جسے بچپن سے اس کے ماما پاپا یہ کہتے ہوں:
’’بیبی!
ڈانٹ گو آؤٹ سائیڈ، پلیز کم ان سائیڈ، پلے ود یور سسٹر‘‘ اور وہ بچہ جو
کلاس میں سب سے مار کھاتا ہو، جس کا پسندیدہ رنگ گلابی، پسندیدہ کھیل گڈے
گڈی کی شادی، جس کا سرمایہ حیات اس کی باربی ڈولز کی کلیکشن ہو، جس کابولنے
کا انداز ایسا ہو کہ خود آواز کو بھی شرم آ جائے،جس کو کھڑے کو پیشاب
کرنے میں آسانی رہتی ہو، جو گدھے کو آواز نکالتا دیکھ کر گھر کے کونے
کھدرے میں چھپ جائے، تو سمجھ جایئے وہ لڑکا بڑا ہو کر’’لنڈے کا انگریز‘‘
بنے گا۔
یوں
تو ہمیں ان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں لیکن یہ کبھی کبھی کچھ اچھا ہو رہا ہو
تو ان کو مرچیں لگ جاتی ہیں… اور یہ اس پر اپنا اظہار خیال کیے بنے رہ
نہیں سکتے۔
یہ
’’لنڈے کے انگریز‘‘ گاہے بہ گاہے اپنی عالمانہ ٹائیپ جاہلانہ گفتگو سے
عوام کو محظوظ کرتے ہی رہتے ہیں مگر پھر بھی ان کے شب روز اسی انتطار میں
گزرتے ہیں کہ اسلام سے متعلق کوئی بری خبر ملے کوئی پاکستانی چوری کرتا
پکڑا جائے، کوئی دھماکہ ہو، کوئی داڑھی والا غلط حرکت کے باعث اخبارات میں
ہو، کسی دینی ادارے پر کیچڑ اچھالنے کا موقع ہو تو بس پھر یہ ہوتے ہیں اور
چوبیس گھنٹے نہ رکنے والی دانش وڑانہ گفتگو۔ دلیل وہی دی جاتی ہے جو سعادت
حسن منٹو نے دی تھی کہ اگر معاشرے میں گندگی غلاظت ہے تو میں تو دکھاوں
گا۔
ان
”لنڈے کے انگریزوں” کی مثال اس مکھی کی طرح ہے جو اگر پھولوں کے اوپر بھی
اڑ رہی ہو تو غلاظت ڈھونڈ نکالتی ہے اور بیٹھتی غلاظت پر ہی ہے۔ خیر پسند
اپنی اپنی نصیب اپنا اپنا۔
’’ویسٹرن
لبرل‘‘ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے اور یہ’’لنڈے کے انگریز‘‘ ’’گدھے‘‘ کی
طرح ڈھیچو ڈھیچو کرتے ہوئے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ اسلام کے خلاف کینہ بغض
اور زہر ان میں ایسے بھرا ہوا ہوتا ہے جیسے’’کوکومو‘‘ میں چاکلیٹ۔
آج آپ سو چ رہے ہوں گے کہ ’’ لنڈے کے انگریزوں‘‘ نے ایسا کیا کر دیا …
تو جناب! آپ بھی سن لیجئے
آپ جانتے ہیں کہ چند دن پہلے اسلام کے شیروں نے ، اصلی غیرت مندوں نے، پیرس میں گستاخان رسول کے پرخچے اڑا دیے تھے…
بس اسی بات کو لے کر ’’لنڈے کے انگریزوں ‘‘ کو پیٹ میں ایسے مروڑ اٹھ رہے ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے…
کہ آخر اسلام کیوں فتح یاب ہو گیا؟…
فرانس جیسے انتہائی لبرل اور کمینے پن والے معاشرے میں یہ ’’پاکیزہ جانباز‘‘ کیسے پیدا ہو گئے۔
کیوں حملہ کیا؟ یہ ظلم تھا؟ بہت بڑا ظلم…
آخر ناموس رسالت کے نام پر اتنے لوگوں کا خون بہانے کی کیا ضرورت تھی؟…
اس سے مسلمانوں کو شرمندگی ہوئی ہے…
نام بد نام ہوا ہے؟
ہم اب کیا منہ لے کر ’’امریکہ‘‘ اور لندن ‘‘ جائیں گے…
آہ ! ’’ انگریزوں کی خاک چاٹنے والے ’’دیسی انگریزو‘‘
تمہیں کیا پتا؟ کہ سچے مسلمان کے لئے ان کے پیغمبر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا…کچھ بھی نہیں…
سچ کہتے ہیں کہ ان بد نصیبوں کو ان کے حال پر ہی چھوڑدینا چاہیے… یہ ازلی بد بخت ہیں…
Copid
No comments:
Write comments