مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمتہ الله علیہ
![](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh9oPKyMqCcybwfZUE6F39TQ_Fs5177MHRWBgqNpyAZuoB_zQaiA_PBrykNVwhbjJ2sB5ul-cjDJ4C06DbGk2xHfNf3E-8NGuaf6DJxRnugps3PnUzau4oB_Yu0qVC-LKuHi_cS6OqOD9ns/s320/mualana+ameen+safdr+okarvi+rh+%25D9%2585%25D9%2588%25D9%2584%25D8%25A7%25D9%2586%25D8%25A7+%25D9%2585%25D8%25AD%25D9%2585%25D8%25AF+%25D8%25A7%25D9%2585%25DB%258C%25D9%2586+%25D8%25B5%25D9%2581%25D8%25AF%25D8%25B1+%25D8%25A7%25D9%2588%25DA%25A9%25D8%25A7%25DA%2591%25D9%2588%25DB%258C+%25D8%25B1%25D8%25AD%25D9%2585%25D8%25AA%25DB%2581+%25D8%25A7%25D9%2584%25D9%2584%25D9%2587+%25D8%25B9%25D9%2584%25DB%258C%25DB%2581.jpg)
مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی کی پیدائش مورخہ چار اپریل 1934ء کو بیکانیر، ضلع گنگا نگر (جو اب بھارت کا حصہ ہے) میں ہوئی، آپ رحمہ اللہ کی پیدائش اور علمی محققانہ طرز زندگی حضرت مولانا سید شمس الحق رحمہ اللہ (فاضل دار العلوم دیوبند) [*] کی دعاؤں کا ثمرہ ہے اور انہوں نے ہی حضرت کا نام محمد امين تجویز فرمایا تھا اور بڑے پیار سے سر پر ہاتھ پھیر کر آپ رحمہ اللہ کے والد محترم ولی محمد سے فرمایا: “یہ لڑکا مولوی بنے گا، مناظر بنے گا!” چناچہ اللہ تعالٰی نے حضرت سید صاحب رحمہ اللہ کی دعاء قبول فرماتے ہوۓ آخر کار حضرت کو ماسٹر محمد امین سے مناظر اسلام، محقق حنفیت، وکیل اہل سنت والجماعت مولانا محمد امین صفدر بنا دیا۔
تحقیق وتحریر میں حضرت اوکاڑوی رحمہ اللہ چونکہ شیخ ومرشد امام اہل سنت والجماعت پیر طریقت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم سے متاثر تھے، اس لۓ صفدر کہلاتے ہوۓ ان کی جانب نسبت ظاہر فرماتے تھے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں تاحال دو ہی صفدر گزرے ہیں، تقریر میں حضرت مولانا محمد امين صفدر اوکاڑوی اور تحریر میں حضرت مولانا سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم۔
حضرت اوکاڑوی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں میں ہی حاصل کی، وہاں چونکہ اہل حق دیوبندی مکتبۂ فکر کا کوئی مدرسہ تھا نہ مسجد اس لۓ عقیدہ توحید سے مناسبت کی وجہ سے ان کے والد محترم نے انہیں غیر مقلدین کی مسجد میں تعلیم کیلۓ حافظ محمد رمضان کے سپرد کر دیا، بعد ازاں مولانا عبد الجبار کنڈیلوی سے کچھ درسی کتب پڑھیں، جس کے نتیجے میں کافی عرصہ تک احناف کے خلاف سرگرم عمل رہے۔ پاکستان بنے کے بعد اپنے والدین کے ہمراہ ضلع اوکاڑہ کے چک نمبر١-٢/٥٥ تشریف لے آۓ اور مستقل طور پر یہاں سکونت اختیار کرلی۔
١٩٣٥ء میں حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالٰی کے شاگرد رشید، حضرت مولانا محمد عبد الحنان رحمہ اللہ (فاضل دیوبند) اور حضرت مولانا عبد القدیر (فاضل دیوبند) جب اوکاڑہ تشریف لاۓ تو آپ رحمہ اللہ کے استاذ مولانا عبد الجبار کنڈیلوی نے حضرت اوکاڑوی کو ان سے بحث ومباحثہ کرنے کیلۓ بھیج دیا۔ ان سے بحث میں نہ صرف کہ حضرت اوکاڑوی ہار بیٹھے بلکہ ان کی ناصحانہ باتوں کے اثر سے، غیر مقلدی برین واشنگ بھی اتر گئی اور یوں وہ اپنے مسلک سے تائب ہو کر اہل السنہ والجماعہ احناف میں شامل ہو گۓ۔ اس بارے میں حضرت اوکاڑوی کا اپنا مضمون “میں حنفی کیسے بنا؟” مطبوعہ مجموعہ رسائل صفدری، نہ صرف انتہائی دلچسپ ہے بلکہ قابل دید ہے۔
حضرت مولانا مفتی بشیر احمد پسوری رحمہ اللہ کی تلقین سے آپ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ سے بیعت ہوۓ اور حضرت لاہوری کی خصوصی توجہات کا مرکز بنے۔ والدین کی تربیت، طبعی نفاست پسندی اور سب سے بڑھ کر حضرت لاہوری رحمہ اللہ کی شفقت ومحبت اور خصوصی تعلق نے آپ کی روحانیت میں نہ صرف کہ نکھار ہی پیدا کردیا تھا بلکہ حنفیت کے میدان میں ایسا سکہ جمایا کہ تاحال مسلک حنفيہ کی ترویج واشاعت اور تحفظ وخدمت کے میدان میں آپ کا ثانی نہیں ہے۔
آپ کے روز وشب خدمت دین حنیف میں گزرتے۔ کثرت درود واتباع سنت کی وجہ سے عشق رسول صلى اللہ عليہ وسلم بحظ وافر نصیب ہوا تھا، قریشی صاحب) کو حضرت اوکاڑوی نے خود فرمایا کہ حضرت لاہوری رحمہ اللہ کی دعاؤں اور کثرت درود اور اللہ تعالٰی کے محض فضل وکرم سے مجھے خواب میں نبی اقدس صلى اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو میں نے دربار نبوی میں عرض کیا کہ حضور! میں مسائل یاد کرتا ہوں، احدیث پڑھتا ہوں، آپ کی ہدایات کو یاد کر کے عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہوں مگر یاد نہیں رہتیں! تو ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی اقدس صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعابِ دہن میرے ہونٹوں پر لگاتے ہوۓ فرمایا کہ “انشاء اللہ اب ایسا نہیں ہوگا”۔
حضرت مولانا اوکاڑوی رحمہ اللہ بعض حالات کی وجہ سے مجبوراً پرائمری اسکول میں ٹیچر ہوۓ تاہم یہ ان کا اصل مشغلہ نہیں تھا۔ الحمد للہ اسکول سے فراغت کے بعد وہ باقی وقت عربی وفارسی دینی کتب کا مطالعہ اور تبلیغ دین میں مصروف رہتے چنانچہ آپ نے اپنے گاؤں میں دو مرتبہ مکمل قرآن حکیم کا درس بھی دیا ،حضرت لاہوری رحمہ اللہ کی دعاؤں اور توجہات نے حضرت اوکاڑوی رحمہ اللہ کو دین حنیف کا سپاہی بنا دیا۔ فرق باطلہ…خصوصاً مرزائیوں اور عیسائیوں وروافض اور منکرین فقہ کے ساتھ کراچی سے خیبر تک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً ایک سو سے زائد مناظرے کۓ جن میں اللہ تعالٰی نے حضرت اوکاڑوی کو ہر جگہ سرخرو کیا جس سے ہزاروں لوگ اہل باطل کے دام فریب سے نکلنے میں نہ صرف کامیاب ہی ہوۓ بلکہ حضرت نے تعمیری تنقید کا ایک نیا اسلوب متعارف کروا کر معاشرے کو تقریب پسند اور تفرقہ باز جماعتوں کے گھناؤنے اثرات سے پاک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔[*]
مدارس عربیہ، علوم اسلامیہ کی نشر واشاعت کے مراکز اور اسلام کا قلعہ ہونے کے ساتھ ساتھ دین حنیف کو یلغار باطل سے محفوظ رکھنے کیلۓ ڈھال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ رحمہ اللہ کو مدارس دینیہ کے اجراء، سرپرستی اور تعاون کا ذوق اپنے اکابر سے ورثہ میں ملا تھا، آپ نے اپنے گاؤں میں ذاتی زمین پر ایک مکتب قرانی تعمیر کروایا، خود حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰن صاحب کے حکم پر اسکول کی نوکری چھوڑ کر ایک طویل عرصہ تک جامعہ العلوم الاسلاميہ علامہ سيّد محمد یوسف البنوري ٹاؤن کراچی میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے، ان کے وصال کے بعد جامعہ خير المدارس ملتان کے رئيس حضرت مولانا قاری محمد حنیف صاحب جالندھری دامت بركاتہم کے بار بار اصرار پر ١٤١٤ھ میں ملتان تشریف لے گۓ اور تاحیات جامعہ خير المدارس ملتان میں شعبہ تخصص في الدعوہ والارشاد کے رئیس رہے۔ علاوہ ازین شعبان ورمضان کی سالانہ چھٹیوں میں ملک وبیرون ملک دیگر مدارس اسلامیہ میں دورہ پڑھانے اور وقتاً فوقتاً مناظروں اور جلسوں سے خطاب کے لۓ تشریف لے جاتے۔
حضرت اوکاڑوی اصول وفروع میں اپنے اکابر علماء دیوبند پر اعتماد کو اس دور پرفتن میں ہر فتنہ کا علاج سمجھتے ہوۓ ہمیشہ اس کی اہمیت وافادیت بیان فرماتے۔ اگرچہ تعمیری تنقید اور حنفیت کی تحقیق میں وہ مجتہدانہ شان کے مالک تھے تاہم عجز وانکسار کا پیکر مجسم تھے اور اپنی زندگی کے آخری دور میں میرے شیخ ومرشد، امام اہل السنت، شیخ الحديث مولانا سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم العاليہ (گوجرانوالہ) کی تحقیقات اور علمی کاوشوں سے بڑی حد تک متاثر تھے۔ ان سے آپ رحمہ اللہ کا بڑا گہرا روحانی تعلق بھی تھا۔ مولانا اوکاڑوی اس دور کے نزاعی مسائل میں اکابر کی تحقیق کو حرف آخر سمجھتے اور تحقیق کے نام پر اس سے انحراف کو انتہائی بری نظر سے دیکھتے تھے۔ والد محترم عمر الدین قریشی صاحب سے چونکہ ان کی بچپن سے دوستی تھی اس لۓ اکثر دونوں میں بے تکلفانہ گفتگو رہتی بلکہ مولانا امین صفدر اکثر والد صاحب کو مناظروں میں بھی ساتھ رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ ان سے عرض کیا؛ “امین صاحب! کبھی جناب نے سونچا بھی ہے کہ اتنا بڑا منصب (کہ جناب بڑے بڑے علماء کرام ومفتیان عظام کے استاذ بنے بیٹھے ہیں) آپ کو کس وجہ سے ملا؟” تو برکلا ارشاد فرمایا؛ “حضرت لاہوری رحمہ اللہ کی دعاؤں، حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کی شفقت، اپنے اکابر پر اعتماد اور علماء کرام کی محبت سے!”
آپ نے ماہنامہ بینات کراچی، ماہنامہ الحنفیہ جام پور، ماہنامہ الخیر ملتان وغیرہ میں حنفیت کی ترویج واشاعت وتحفظ میں بے شمار مضامین لکھے اور بہت سی کتب بھی تصنیف فرمائیں جن کو اکابر واصاغر قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور رہتی دنیا تک علماء وطلبہ ان سے مستفید ہوتے رہیں گے۔
آپ نے نہایت بے تکلف اور سادہ زندگی گزاری، حتٰی کہ تقریروں اور مناطروں میں بھی بات کرنے کا انداز بالکل سادہ مگر محققانہ تھا۔ کھانے پینے، لباس، نشست وبرخاست میں بھی کسی تکلف وامتیاز کے روادار نہ تھے۔
نقاہت اور بیماری کے آثار ایک طویل عرصہ سے نمایاں تھے، علاج جاری تھا کہ ٣ شعبان المعظم ١٤٢١ھ بمطابق ٣ اکتوبر 2000ء کو طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور منگل اور بدھ کی درمیانی شب رات نو بجے کے قریب اپنے آبائی گاؤں (اوکاڑہ) میں دین حنیف کے عالمی ترجمان نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی
No comments:
Write comments