تحفہٴ دُعا
( دُعائے انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ)
Gift dua: Dua-e-anasBin Malik (R.A)
س… آج کل جیسا کہ آپ جانتے ہیں ملکی حالات خراب ہیں، جلاوٴ گھیراوٴ کی فضا ہے، کسی کی جان و مال اور عزّت محفوظ نہیں، اس کے لئے دُعا بتلادیں۔ ہم نے سنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی دُعا حضرت انس رضی اللہ عنہ کو سکھلائی تھی، اگر اس کی نشاندہی ہوجائے تو عنایت ہوگی۔
ج… آپ کی خواہش پر وہ دُعا تحریر کی جاتی ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادمِ خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ کو سکھلائی تھی۔ اس کی برکت سے وہ ہر قسم کے مظالم اور فتنوں سے محفوظ رہے۔ اس دُعا کو علامہ سیوطیرحمہ اللہ نے جمع الجوامع میں نقل فرمایا ہے اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اس کی شرح فارسی زبان میں تحریر فرمائی ہے، اور اس کا نام “استیناس انوار القبس فی شرح دعاء انس” تجویز فرمایا ہے، ذیل میں ہم دُعائے انس رضی الله عنه اور اس کی فارسی شرح کا اُردو ترجمہ پیش کرتے ہیں، آنجناب، حضرات علماء و طلباء و مبلغینِ اسلام اور تمام اہلِ اسلام صبح و شام اس دُعا کو پڑھا کریں، اِن شاء اللہ انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی، وہ دُعا یہ ہے:
“بِسْمِ اللهِ عَلٰی نَفْسِیْ وَدِیْنِیْ، بِسْمِ اللهِ عَلٰی اَھْلِیْ وَمَالِیْ وَوَلَدِیْ، بِسْمِ اللهِ عَلٰی مَا اَعْطَانِیَ اللهُ، اَللهُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہ شَیْئًا۔ اَللهُ اَکْبَرُ، اَللهُ اَکْبَرُ، اَللهُ اَکْبَرُ وَاَعَزُّ وَاَجَلُّ وَاَعْظَمُ مِمَّا اَخَافُ وَاَحْذَرُ عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَاوٴُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْطَانٍ مَّرِیْدٍ، وَّمِنْ شَرِّ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ، فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللهُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اِنَّ وَلِیَّ اللهُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ۔”
-----------------------------------------------
شرح فارسی اردو ترجمہ :
“یہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی دُعا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادمِ خاص تھے۔ دس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی والدہ کی استدعا پر ان کو خیر دُنیا و آخرت کی دُعا سے مشرف و مخصوص فرمایا تھا، اور حق سبحانہ وتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا کی برکت سے ان کی عمر و مال اور اولاد میں عظیم برکت عطا فرمائی، چنانچہ ان کی عمر سو سال سے زیادہ ہوئی اور ان کی صلبی اولاد کی تعداد سو کو پہنچی ہے۔ جن میں تہتر مرد تھے اور باقی عورتیں۔ اور ان کا باغ سال میں دو بار پھل لاتا، یہ دُنیا کی برکات تھیں (جو بطفیل دُعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو حاصل ہوئیں) باقی آخرت کی برکات کا اندازہ کون کرسکتا ہے۔
شیخ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ جلیل القدر حافظِ حدیث ہیں، انہوں نے “جمع الجوامع” میں نقل کیا ہے کہ ابو الشیخ رحمہ اللہ نے “کتاب الثواب” میں اور ابنِ عساکر رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں یہ واقعہ روایت کیا ہے کہ ایک دن حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف ثقفی کے پاس بیٹھے تھے۔ حجاج نے حکم دیا کہ ان کو مختلف قسم کے چار سو گھوڑوں کا معائنہ کرایا جائے۔ حکم کی تعمیل کی گئی، حجاج نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا: فرمائیے(۱)! اپنے آقا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی اس قسم کے گھوڑے اور ناز و نعمت کا سامان کبھی آپ نے دیکھا؟ فرمایا: بخدا! یقینا میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدرجہا بہتر چیزیں دیکھیں اور میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جن گھوڑوں کی لوگ پروَرِش کرتے ہیں، ان کی تین قسمیں ہیں، ایک شخص گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ حق تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرے گا اور دادِ شجاعت دے گا۔ اس گھوڑے کا پیشاب، لید، گوشت پوست اور خون قیامت کے دن تمام اس کے ترازوئے عمل میں ہوگا۔ اور دُوسرا شخص گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ ضرورت کے وقت سواری کیا کرے اور پیدل چلنے کی زحمت سے بچے (یہ نہ ثواب کا مستحق ہے اور نہ عذاب کا)۔ اور تیسرا وہ شخص ہے جو گھوڑے کی پروَرِش نام اور شہرت کے لئے کرتا ہے، تاکہ لوگ دیکھا کریں کہ فلاں شخص کے پاس اتنے اور ایسے ایسے عمدہ گھوڑے ہیں، اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اور حجاج! تیرے گھوڑے اسی قسم میں داخل ہیں۔ حجاج یہ بات سن کر بھڑک اُٹھا اور اس کے غصّے کی بھٹی تیز ہوگئی اور کہنے لگا: اے انس! جو خدمت تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کی ہے اگر اس کا لحاظ نہ ہوتا، نیز امیرالموٴمنین عبدالملک بن مروان نے جو خط مجھے تمہاری سفارش اور رعایت کے باب میں لکھا ہے، اس کی پاسداری نہ ہوتی تو نہیں معلوم کہ آج میں تمہارے ساتھ کیا کر گزرتا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خدا کی قسم! تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور نہ تجھ میں اتنی ہمت ہے کہ تو مجھے نظرِ بد سے دیکھ سکے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند کلمات سن رکھے ہیں، میں ہمیشہ ان ہی کلمات کی پناہ میں رہتا ہوں اور ان کلمات کی برکت سے مجھے نہ کسی سلطان کی سطوت سے خوف ہے، نہ کسی شیطان کے شر سے اندیشہ ہے۔ حجاج اس کلام کی ہیبت سے بے خود اور مبہوت ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد سر اُٹھایا اور (نہایت لجاجت سے) کہا: اے ابو حمزہ! وہ کلمات مجھے بھی سکھادیجئے! فرمایا: تجھے ہرگز نہ سکھاوٴں گا، بخدا! تو اس کا اہل نہیں۔
پھر جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت آیا، آبان جو آپ رضی الله عنه کے خادم تھے، حاضر ہوئے اور آواز دی، حضرت رضی الله عنه نے فرمایا: کیا چاہتے ہو؟ عرض کیا: وہی کلمات سیکھنا چاہتا ہوں جو حجاج نے آپ رضی الله عنه سے چاہے تھے مگر آپ رضی الله عنه نے اس کو سکھائے نہیں۔ فرمایا: ہاں! تجھے سکھاتا ہوں، تو ان کا اہل ہے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دس برس خدمت کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال اس حالت میں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے راضی تھے، اسی طرح تو نے بھی میری خدمت دس سال تک کی اور میں دُنیا سے اس حالت میں رُخصت ہوتا ہوں کہ میں تجھ سے راضی ہوں۔ صبح و شام یہ کلمات پڑھا کرو، حق سبحانہ وتعالیٰ تمام آفات سے محفوظ رکھیں گے، وہ کلمات یہ ہیں:
“بسم الله علٰی نفسی ودینی” یعنی حفاظت مانگتا ہوں اور پناہ لیتا ہوں نام خدا کی اپنے نفس پر اور اپنے دِین پر۔ ہوسکتا ہے بسم الله سے مراد پوری بسم الله الرحمن الرحیم ہو، جس کے جزء اوّل پر اکتفا کیا ، جیسے جب کہا جائے کہ کیا پڑھتے ہو؟ تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ الحمدللہ پڑھتا ہوں، مراد پوری سورت ہوتی ہے۔ حفاظت میں تخصیص نفس اور دِین کی اس وجہ سے فرمائی کہ ہر کمال کے حاصل کرنے کی بنیاد اور مبداء مآل کی اصل نفس و دِین ہیں۔ پھر نفس کو مقدم فرمایا، کیونکہ نفس ہر کمالِ دِینی و دُنیاوی کی تحصیل کے لئے موقوف علیہ ہے۔ اسی وجہ سے نفس کو ہلاکت میں ڈالنا حرام اور مقدور بھر اس کی حفاظت واجب ہے۔ مسائلِ شرعیہ میں لکھا ہے کہ اگر لقمہ کسی کے گلے میں پھنس جائے (جس سے جان پر بن آئے) اور پانی وہاں موجود نہ ہو جس سے اس پھنسے ہوئے لقمے کو نیچے اُتار سکے (نہ کوئی اور صورت اس کے اُتارنے کی ہوسکے) تو ایسے وقت شراب کا گھونٹ پی لینا جو قطعی حرام ہے، اس کے لئے حلال ہوگا، بلکہ واجب ہوگا۔ تاکہ نفس و حیاتِ فانی کو جو حیاتِ حقیقی جاودانی کے حصول کا سبب ہے باقی رکھا جاسکے۔ جبر و اِکراہ کی حالت میں کلمہٴ کفر زبان پر جاری کرنا بشرطیکہ قلب پوری طرح ایمان کے ساتھ مطمئن ہو نیز اسی قبیل سے ہے۔ یعنی مجبوری کی حالت میں جان بچانے کے لئے کوئی نامناسب لفظ اگر کہہ دیا جائے اور دِل بدستور ایمان پر قائم رہے تو نفس و دِین کی خاطر اس کی اجازت ہے۔ ہاں! اگر کوئی باہمت عزیمت پر عمل کرتے ہوئے جان دے دے، اگر کلمہٴ کفر زبان پر نہ لائے تو بہت ہی بہتر اور بلند کام ہے۔ یہاں اس مسئلے کی پوری تفصیل کا موقع نہیں، اس لئے کتبِ فقہ میں دیکھا جائے، یا کسی عالم سے رُجوع کیا جائے۔
“بسم الله علٰی اھلی ومالی وولدی” نفس و دِین کی حفاظت کے بعد اہل، مال اور ولد کو یاد کیا، کیونکہ یہ چیزیں بھی نفس و دِین کے بقا کے لئے سبب اور ممد و معاون ہیں، اور ان پر بسم اللہ جدا ذکر کی، اسی بسم اللہ پر جو پہلے ذکر ہوچکی تھی کفایت کرتے ہوئے یوں نہیں کہا: “بسم الله علٰی نفسی ودِینی واھلی ومالی وولدی” عبارت میں یہ طریق اختیار کرنا اصحابِ بلاغت کے نزدیک اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اوّل الذکر اور ثانی الذکر دونوں قسمیں مقصود ہیں اور دونوں کا قصد و اہتمام یکساں ہے۔ اہل و آل دونوں لفظ ہم معنی ہیں، کبھی تابع اور پسر کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں، کبھی اولاد کے معنی میں، یہاں اولاد کا ذکر چونکہ بعد میں موجود ہے، اس لئے معنی اوّل زیادہ مناسب ہیں۔ یہ یاد رہے کہ مال و اسباب کا ذکر جب مدح اور خوبی کے موقع پر کیا جائے تو مراد وہاں مالِ حلال ہوتا ہے، جو آخرت کے لئے وسیلہ ہے اور اس کا جمع کرنا سعادت کا باعث اور کمال کا موجب ہے، باقی تمام وبال و عذاب کا سامان ہے۔ اور ولد کے معنی اولاد کے ہیں، مذکر ہو یا موٴنث، اور اولاد کا وجود بھی من جملہ اسبابِ قوّت کے ہے، جو دِین و دولت کے لئے مددگار ہے۔ اور لڑکا اگر نیک اور رشید ہو تو سعادتِ دُنیا و آخرت کا موجب ہے۔ حدیث میں ہے کہ آدمی کے دُنیا سے رُخصت ہوجانے کے بعد تین چیزیں باقی رہ جاتی ہیں۔ اوّل: علمِ دِین، جو اس کے اہل لوگوں کو سکھایا ہو اور علمی سلسلے کو جو جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم پر منتہی ہوتا ہے قائم رکھتا ہو۔ دوم: صدقہٴ جاریہ، جس میں بندگانِ خدا کا نفع ہو اور مرنے والے کے بعد تک قائم رہے۔ مبارک ہے وہ شخص جس کے مرنے کے بعد پل، کنواں، مسجد اور مہمان خانے باقی رہیں۔ سوم: نیک لڑکا جو اس کے انتقال کے بعد دُعا ایمان کے ساتھ یاد کرتا رہے، تاکہ باپ کے گناہوں کی بخشش اور اس کے رفع درجات کا موجب بنے۔ حدیث میں ان تین اُمور کا ذکر اسی ترتیب سے واقع ہوا ہے جو ذکر کی گئی۔ اس ترتیبِ ذکری میں اشارہ اس طرف ہے کہ علم و مال اولاد، اس باب میں فضیلت رکھتے ہیں کیونکہ ولدِ صالح کا وجود آخر زمان میں نادر ہوگا اور بعض روایات میں ولد کا ذکر مال سے مقدم ہے، بے شک اولاد، مال سے عزیز تر اور محبوب تر ہے، اس کی حفاظت و نگہداشت بھی زیادہ مطلوب اور مقدم ہے۔
“بسم الله علٰی ما اعطانی الله” حفاظت لیتا ہوں نامِ خدا کی ہر نعمت پر جو حق تعالیٰ نے عطا فرمائی۔ جب چند نعمتوں کا جو دُنیا و آخرت کی تمام نعمتوں کے لئے اصل اور مدار ہیں، ذکر کیا، اس کے بعد عام لفظ ذکر کیا، تاکہ اصل و فرع اور چھوٹی بڑی سب نعمتوں کو شامل ہوجائے۔ درحقیقت حق تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار دائرہٴ امکان سے خارج ہے، فرمایا ہے: “وان تعدوا نعمة الله لا تحصوھا، ان الانسان لظلوم کفار” صیغہ مبالغہ کے ساتھ فرمایا، (یعنی بلاشبہ انسان بڑا ظالم اور بڑا ناشکرا ہے۔ بڑا ظالم اس لئے کہ خالق و مالک کی نعمتوں کا شکر کرنے کی بجائے ان کی دُوسروں کی طرف نسبت کرتا ہے)۔ دُوسری جگہ: “ان الله لغفور رحیم” فرمایا، یعنی اگر خالق تعالیٰ کی مغفرت و رحمت نہ ہوتی تو اس ناسپاسی کی وجہ سے آدمی پر کام تنگ ہوجاتا۔ اس کی مغفرت و رحمت خود ایک نعمت ہے، بلکہ اصل نعمت ہے، باقی اس کے مقابلے میں سب ہیچ ہیں۔ حدیث میں ہے کہ بدوں فضل و رحمتِ خداوندی کوئی بھی جنت میں داخل نہ ہوگا۔ اس نعمت کا شکر ادا کرنا چاہئے، بیکار بیٹھنا زیبا نہیں۔ سیّد العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ تہجد میں اس قدر قیام فرماتے کہ قدم مبارک پر وَرم آجاتا اور ان سے خون جاری ہوجاتا، عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کیا آپ کے اگلے پچھلے سب قصور معاف نہیں کردئیے گئے، خود حق جل مجدہ کا ارشاد ہے: “لیغفر لک الله ما تقدم من ذنبک وما تأخر” پھر اس قدر تعب اور مشقت کس لئے اُٹھاتے ہیں؟ ارشاد فرماتے کہ: حق تعالیٰ نے میری بخشش فرمادی ہے اور اس کی بخشش بڑی نعمت ہے، اگر اس نعمت کا شکر نہ کروں تو بندہٴ شاکر کیسے کہلاوٴں۔ غور کا مقام ہے کہ سیّدِ اوّلین و آخرین کہ عالم و عالمین جن کا طفیل ہے، جب یہ مشقت برداشت فرماتے ہیں اور بندگی میں مشغول ہیں، تو دُوسروں کو کیوں ضرورت نہ ہوگی؟
“الله ربی لا اشرک بہ شیئًا” خدا میرا پروردگار ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروں گا۔ آدمی کو جو مصائب اور حوادث پیش آتے ہیں ان کی شدّت اور محنت کو دفع کرنے میں اس کلمے کی فضیلت اور خاصیت احادیث میں بہت واقع ہوئی ہے اور اس کی حقیقت حق تعالیٰ کی توحیدِ افعالی کا مشاہدہ کرنا ہے کہ جو کچھ پیش آئے سب کو اسی کی پیش گاہ سے جانے، اور شرکِ خفی کے دام میں گرفتار نہ ہو۔ اپنے پروردگار کے ساتھ حسنِ ظن رکھے کہ جب بندہ اسی ذات بے چون و بے چگون کی تربیت میں ہے تو جو معاملہ اس کی طرف سے ہوگا، بندہ کی صلاح و فلاح اسی میں ہوگی۔ لیکن یہ اس شخص کے لئے ہے جو دائماً اس کے لطف و کرم کی جانب متوجہ اور ملتجی رہے اور اپنے تمام اُمور اسی کے سپرد کئے ہوئے ہو اور نورِ ولایت کا عکس اس کی پیشانی پر درخشاں ہو، اور پروردگارِ عالم اپنے لطفِ خاص کے ساتھ اس کے اُمور کا متولّی ہو، ورنہ مذہب یہی ہے کہ اصلح حق تعالیٰ پر واجب نہیں وہ جو چاہے کرے، کسی کی مجال نہیں کہ دَم مارسکے۔
تنبیہ:… جس دُعا کے متعلق شریعت میں آیا ہے کہ اس کے پڑھنے کی یہ جزا ہے، اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس حال کو اپنے اندر پیدا کرلے اور اس معنی کے ساتھ متصف ہوجائے ورنہ اعضاء کی خالی حرکت اور محض زبان پر کلمات کا جاری کرلینا کافی نہیں مگر یہ کہ شارع کی جانب سے تصریح ہوجائے کہ یہ خاصیت محض لفظ اور نفس حروف میں ہے تو اس وقت وہ اثر بالخاصہ اس لفظ پر مرتب ہوگا اور معنی جاننے کی حاجت نہ ہوگی۔
لیکن اس کے باوجود بے کار نہ بیٹھنا چاہئے اور عمل کو اس حال کے حصول پر موقوف نہ رکھنا چاہئے، خدا کا فضل نہایت وسیع ہے اور حق تعالیٰ بندوں کی دُعا قبول فرمانے والے ہیں۔ شرائط و آداب کی رعایت جس قدر بھی کی جائے گی وہ بہرحال محدود ہوگی لیکن حق تعالیٰ کا فضل و کرم دائرہٴ حساب سے خارج ہے، جو چیز پوری حاصل نہ ہوسکے اسے بالکلیہ چھوڑا بھی نہیں جاسکتا، اللہ توفیق دے۔ چنانچہ اِخلاص و رِیا کے باب میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ: کیا کیا جائے؟ اگر ہم عمل کریں تو رِیا کی آمیزش ہوجاتی ہے، نہ کریں تو بے کاری ہے۔ فرمایا: عمل کرتے رہو اور رِیا سے اِستغفار کرتے رہو، بے کار بیٹھنا مصلحت نہیں، عمل پر اگر دوام کیا جائے تو نورانیتِ عمل سے دِل میں اِخلاص بھی پیدا ہوجائے گا، اِن شاء اللہ تعالیٰ۔
“الله اکبر، الله اکبر، الله اکبر واعز واجل واعظم مما اخاف واحذر” خدا بزرگ تر اور غالب تر ہے، ہر اس چیز سے جس سے میں ڈرتا ہوں اور اندیشہ رکھتا ہوں۔ بعض روایات میں “اجل” کے بعد “اعظم” بھی ذکر ہوا ہے۔ کبریائی، عزت، عظمت اور جلال قریب المعنی ہیں، اگر کبریائی کا تعلق ذات سے، عزت کا افعال سے، عظمت کا اسماء سے اور جلالت کا صفات سے اعتبار کیا جائے تو بعید نہ ہوگا۔ چونکہ نفس جبلی طور پر بے یقینی، خود ترسی اور ہر آسانی کا خوگر ہے، خصوصاً جہاں معاملہ اپنے سے غالب کے ساتھ ہو جیسے سلطان و جبار، اس لئے اس کلمے میں عظمت و کبریائی خدواندی کے استحضار کے ساتھ (جس سے لازماً شعلہٴ نورِ یقین مشتعل ہوجاتا ہے) اسے دلیر بنادیا۔
کہ ہاں اے نفس! ڈر نہیں، تیرا پروردگار دُشمن سے بزرگ تر ہے اور غالب بھی، دُشمن اگر قوی ہے، نگہبان قوی تر ہے، تو اپنے مولا سے ڈر، تاکہ سب تجھ سے ڈریں۔ سچ ہے کہ جو خدا سے ڈرے اس سے ہر چیز ڈرتی ہے۔ اس کلمے میں اس پر بھی تنبیہ ہے کہ معاملہ جب غالب کے ساتھ ہو تو باطن کو حق تعالیٰ کی کبریائی سے معمور رکھا جائے، تاکہ بیگانہ کی ہیبت اور عظمت کے لئے دِل میں گنجائش نہ رہے اور حق تعالیٰ کی عظمت کے غلبے میں دُوسروں کی جباری و قہاری مضمحل اور مغلوب ہوجائے۔
“عز جارک” غالب ہے تیرا ہمسایہ اور تیری پناہ لینے والا، جب حق تعالیٰ کی کبریائی کا استحضار اور اس کی عظمت کا مشاہدہ ہوگیا، غیبت سے مقامِ حضور نصیب ہوا، اور خطاب کا شرف حاصل ہوا، حق تعالیٰ کی ہمسائیگی دوام توجہ، جناب لطف میں التجا اور اس کے دامنِ عزّت کے مضبوط پکڑنے سے حاصل ہوتی ہے، جو شخص اس کی جناب عزت میں ملتجی رہے وہ ہرگز مغلوب و مقہور نہ ہوگا۔
“وجل ثناوٴک” تیری ثنا بزرگ ہے، تیری صفاتِ کمال اور قدرتِ لایزال کی گہرائی میں کون جاسکتا ہے، کمزور کو قوی کردے اور بازور کو بے زور بنادے، جسے چاہے عزّت دے، جسے چاہے ذلیل کردے، یہ تیری شان ہے۔
“ولا الٰہ غیرک” اور تیرے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں، “اللّٰھم انی اعوذ بک من شر نفسی” چونکہ تمام شرور و قبائح کا منبع اور بے یقینی و بے ثباتی کا باعث نفس ہے اس لئے اس سے حق تعالیٰ کی پناہ لی جو شر، کہ آدمی کو پیش آتا ہے، تمام اس کے نفس کی جانب سے ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دُعا فرمایا کرتے: “رَبّ لا تکلنی الی نفسی طرفة عین ولا اقل من ذٰلک” اے پروردگار! مجھے ایک لمحے کے لئے بھی میرے نفس کے سپرد نہ کیجئے، بلکہ ہمہ دَم باخود رکھئے اور اپنی عظمت کے مشاہدے میں مشغول رکھئے تاکہ چشمِ زدن کے لئے بھی اغیار کو مجھ پر تأثیر و تصرف اور غلبے کی مجال نہ ہو۔
“ومن شر کل شیطان مرید، ومن شر کل جبار عنید” اور میں آپ کی پناہ لیتا ہوں ہر شیطان مردود کے شر سے اور ہر شیطان متکبر کے شر سے جو راہِ حق میں حائل ہو۔ عناد کے معنی راہِ راست سے ہٹ جانا اور حق کو جان لینے کے باوجود اس کا مخالف ہونا، چونکہ کارِ شر کی تدبیر اور اغوا و اضلال کی سلطنت شیطان کے حوالے کی گئی ہے، بالکل یہی حال ان جبار و قہار قسم کے لوگوں کا ہے جو مخلوق پر مسلط ہیں، اس لئے ان کے شر سے پناہ مانگنا بھی واجباتِ وقت میں سے ہے۔ اور شیاطین کی دو قسمیں ہیں، اوّل شیاطینِ جنّ یہ ابلیس اور اس کی ذُریت ہے۔ دوم شیطانِ انس، یہ ظالم اور ان کے ہم نوا ہیں۔ فقرہٴ اوّل میں قسمِ اوّل کی طرف اور ثانی میں ثانی کی طرف اشارہ ہے اور قوّتِ وہمیہ جو آدمی کی سرشت میں رکھی گئی ہے اور اسے شیطان عالم انفس کہا جاتا ہے، یہ شیطان عالم آفاق کا نمونہ ہے کہ عقل قویٰ اور آلات شعور پر تسلط رکھتی ہے البتہ جو عقل نورِ یقین سے منوّر اور مصفا ہو اس پر اس کا تسلط نہیں، حکم: “ان عبادی لیس لک علیھم سلطان” پس یہ قوّت معدوم کو موجود کی شکل میں اور باطل کو حق کے لباس میں پیش کرنے کی خوگر ہے۔ اس اسے استعاذہ ضروری ہے، ما سوا اللہ کا خوف زائل ہونے کی بجز دفعِ وہم کے کوئی صورت نہیں۔یہ بھی درحقیقت استعاذہ از شرِ نفس کی فرع ہے، جیسا کہ فقرہٴ اوّل میں ذکر ہوا۔
“فان تولوا فقل حسبی الله لا الٰہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم” یہ قرآن مجید کی ایک آیت ہے جس میں حق تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “پس اگر کافر لوگ منہ پھیرلیں، حق کی جانب متوجہ نہ ہوں اور اس کے قبول کرنے سے پہلو تہی کریں، تو اے محمد! اے محبوب! اے میرے محفوظ و معصوم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں: “حسبی الله” اللہ مجھے کافی ہے، “لا الٰہ الا ھو” اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، “علیہ توکلت” میں نے اپنا تمام کاروبار اسی کے سپرد کردیا، اس کو اپنا کارساز بنالیا، “وھو رب العرش العظیم” وہ عرشِ عظیم کا مالک ہے، جس سے عظیم تر اور بالاتر عالم اجسام میں کوئی مخلوق پیدا نہیں کی گئی۔
سیاقِ کلام چونکہ جباروں اور قہاروں کے دفع کرنے اور ان کے خوف و اندیشہ کو دُور کرنے میں تھا اور اس کی اصل اور مادّہ ہے عظمت و قہرِ خداوندی کا مشاہدہ کرنا اس لئے مقطع کلام مطلع کے طرز پر لایا گیا اور بات کو عظمت پر ختم کیا گیا، اگر اصحابِ حفظ اور اربابِ دعوت احاطہ عرشِ الٰہی کا مراقبہ مع ملاحظہ اس اضافت کے کریں تو حفظ و صیانت میں زیادہ دخیل ہوگا۔
چنانچہ قطبِ وقت شیخ ابوالحسن شاذلی رحمہ اللہ نے حزب البحر میں (جو کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا ہے اور حفاظت و نگہداشت کے باب میں تریاقِ اکبر ثابت ہوا ہے) فرمایا: “ستر العرش مسبول علینا وعین الله ناظرة الینا وبحول الله لا یقدر احد علینا، والله من ورائھم محیط” یعنی پردہٴ عرش ہم پر لٹکا ہوا ہے اور عنایت و عصمتِ الٰہی کی نظر ہماری طرف نگراں ہے، پھر قوّتِ الٰہی کے ساتھ ہم پر کسی کو قدرت نہ ہوگی، اس کی قوّت سب کو محیط ہے کہ اس قدرت کے احاطے سے باہر نکلنے کا راستہ محال ہے۔
فائدہ:… مشائخِ شاذلیہ قدس اللہ اسرارہم نے مریدوں کو اس دُعا کے پڑھنے کی وصیت فرمائی ہے، یعنی: “حسبی الله لا اِلٰہ الَّا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم” اور ان کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی شخص صرف یہی وظیفہ اختیار کئے ہوئے ہو تو اس کو تمام وظائف سے کفایت کرے گا۔ ان کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اگر اس دُعا کے پڑھنے میں فہم و حضور نہ ہو تب بھی موٴثر اور مقبول ہے، اس کی تعداد دس دس مرتبہ بعد نماز صبح و بعد نمازِ مغرب ہے، اگر سات سات مرتبہ پڑھا جائے تو بھی کافی ہے، بلکہ یہ صحتِ روایت سے قریب تر ہے، اس کا خلاصہ حق جل مجدہ میں اپنی ذات کا یکسو کرنا اور اِخلاص کا مطلب ہے۔ مع ہذا عظمتِ خداوندی کا مشاہدہ کرنا اور ماسوا سے تبریٰ اختیار کرنا اور تدبیر و اختیار سے فارغ ہوجانا، حق تعالیٰ اپنے فضلِ خاص سے ہم کو بھی اس طریقہٴ مستقیمہ کی توفیق عطا فرمائیں اور اس پر ثابت قدم رکھیں۔
بعض روایات میں یہ کلمہ بھی دُعائے مذکور (یعنی دُعائے انس رضی الله عنه) میں مذکور ہے: “ان ولی الله الذی نزل الکتٰب وھو یتولی الصّٰلحین”۔
اس کا ترجمہ یہ ہے: بے شک میرے تمام اُمور کا دوست اور متولّی خدا تعالیٰ ہے، جس نے ایسی کتاب نازل فرمائی جس میں تمام اُمورِ دُنیا و آخرت کی تدبیر ہے، یعنی قرآن مجید، اور وہی نیک لوگوں کے تمام اُمور کو دوست رکھتا ہے اور ان کو تولیت فرماتا ہے۔ اے اللہ! اپنی رحمت سے ہمیں نیک لوگوں میں شامل فرما، آمین!”
---------------------------------------------------------------------------------
2 comments:
Write commentsSalam
ReplyDeleteBro can you provide me Hizb ul Bahr and other Shazili books?
Moreover... How did you incorporate Jameel Noori Nastaleeq?
Jazakallah
وعلیکم السلام .. بهائی آپ اردو میں کتابوں کے نام لکه کر بهیج دیں ... کوشش کریں گئے . اُمید ہے مل جائیں گئ
Delete