امام احمد بن حنبل رح نے کتاب الزاہد میں نوف البکالی سے روایت نقل کی ہے .
نوس البکالی کہتے ہیں کہ ایک مومن آدمی اور ایک کافر آدمی دونوں مچھلی کا شکار کرنے لگے
.
پس کافر آدمی نے اپنا جال پھنکا اور اپنے دیوتا کانام لیا تو اس کا جال مچھلیوں سے بھر گیا. پس مومن آدمی نے اپنا جال پھنکا اور اللہ کا نام لیا لیکن اس کے جال میں مچھلی نہیں آئی . نوف البکالی کہتے ہیں کہ
یہ دونوں شام تک شکار میں مصروف رہے لیکن کیفیت یونہی رہی . پھر آخر کار مومن شخص کے جال میں ایک مچھلی پھنس گئی .
پس اس نے اسے اپنے ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ اچھل کر پانی میں کود گئی.
پس مومن واپس ہوا لیکن اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور کافر واپس ہوا لیکن اس کا تھلیلا مچھلیوں سے بھرا ہوا تھا.
پس مومن کے فرشتہ کو مومن کی اس بے بسی پر افسوس ہوا.
اس نے اللہ سے عرض کیا اے میرے رب تیرا مومن بندہ جو تجھے پکارتا ہے وہ اس حال میو واپس جارہا ہے کہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے
اور تیرا کافر بندہ اس حال میں واپس جاریا ہے کہ اس کا تھیلا مچھلیوں سے بھرا ہوا ہے . پس اللہ تعالی نے مومن کے فرشتے کو مومن کا گھر جنت میں دکھلایا اور فرمایا کہ
میرے اس مومن بندے کو جنت کے اس گھر کے مقابلے میں دنیا کی مفلسی کچھ نقصان نہیں دے گی
اور کافر کا گھر آگ میں فرشتے کو دکھلایا اور فرمایا . کیا کافر کو اس کامال جو دنیا میں اسے حاصل ہوا ہے اس عذاب عظیم سے بچاسکتا ہے ؟
فر شتے نے عرص کیا اے میرے رب ہرگز نہیں
***
سبق:
دنیا کے نقصان پر غریبی و تنگدستی پر صبر کرنا چاہیے ، یہ عارضی چیزیں ہیں اصل نقصان تو آخرت کا ہی ہے وہاں نظر رکهی چاہیے ،
مومن بندے پر دنیا میں جتنی مصیبت تکلیف آتی ہے اس سے اس کے گناه معاف ہوے ہیں یا درجات بلند ہوتے ہیں پس ہمیں ہر مصیبت پر صبر کرنا چاہیے اور الله ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے
=============
نوس البکالی کہتے ہیں کہ ایک مومن آدمی اور ایک کافر آدمی دونوں مچھلی کا شکار کرنے لگے
.
پس کافر آدمی نے اپنا جال پھنکا اور اپنے دیوتا کانام لیا تو اس کا جال مچھلیوں سے بھر گیا. پس مومن آدمی نے اپنا جال پھنکا اور اللہ کا نام لیا لیکن اس کے جال میں مچھلی نہیں آئی . نوف البکالی کہتے ہیں کہ
یہ دونوں شام تک شکار میں مصروف رہے لیکن کیفیت یونہی رہی . پھر آخر کار مومن شخص کے جال میں ایک مچھلی پھنس گئی .
پس اس نے اسے اپنے ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ اچھل کر پانی میں کود گئی.
پس مومن واپس ہوا لیکن اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور کافر واپس ہوا لیکن اس کا تھلیلا مچھلیوں سے بھرا ہوا تھا.
پس مومن کے فرشتہ کو مومن کی اس بے بسی پر افسوس ہوا.
اس نے اللہ سے عرض کیا اے میرے رب تیرا مومن بندہ جو تجھے پکارتا ہے وہ اس حال میو واپس جارہا ہے کہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے
اور تیرا کافر بندہ اس حال میں واپس جاریا ہے کہ اس کا تھیلا مچھلیوں سے بھرا ہوا ہے . پس اللہ تعالی نے مومن کے فرشتے کو مومن کا گھر جنت میں دکھلایا اور فرمایا کہ
میرے اس مومن بندے کو جنت کے اس گھر کے مقابلے میں دنیا کی مفلسی کچھ نقصان نہیں دے گی
اور کافر کا گھر آگ میں فرشتے کو دکھلایا اور فرمایا . کیا کافر کو اس کامال جو دنیا میں اسے حاصل ہوا ہے اس عذاب عظیم سے بچاسکتا ہے ؟
فر شتے نے عرص کیا اے میرے رب ہرگز نہیں
***
سبق:
دنیا کے نقصان پر غریبی و تنگدستی پر صبر کرنا چاہیے ، یہ عارضی چیزیں ہیں اصل نقصان تو آخرت کا ہی ہے وہاں نظر رکهی چاہیے ،
مومن بندے پر دنیا میں جتنی مصیبت تکلیف آتی ہے اس سے اس کے گناه معاف ہوے ہیں یا درجات بلند ہوتے ہیں پس ہمیں ہر مصیبت پر صبر کرنا چاہیے اور الله ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے
=============
No comments:
Write comments