سوال: ہمارے علاقہ کے ایک جدید تعلیم یافتہ استاذ نے نیا فتنہ شروع کررکھا ہے کہ جانور کی قربانی صرف حاجی حج کے موقع پر مکہ معظمہ میں کرسکتا ہے، اس کے علاوہ اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، ہر سال مسلمان عیدالاضحیٰ کے موقع پر فریضۂ حج کی ادائیگی کے بغیر جو دنیا کے مختلف حصوں میں قربانی کرتے ہیں اس کا کوئی جواز نہیں، بلکہ یہ بدعت ہے۔ اس کے اس پروپیگنڈہ نے کئی ضعیف الاعتقاد لوگوں کو گمراہ کررکھا ہے۔ نیز بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مساجد وغیرہ کی تعمیر پر یا رفاہ عامہ کے کاموں میں لگا دیئے جائیں تو پوری امت کا کتنا نفع ہو؟ ان حالات میں ہم نے آپ کی طرف رجوع کرنا مناسب سمجھا، آپ مفصل فتویٰ صادر فرمائیں کہ:
(۱) قربانی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
(۲) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حج کے علاوہ بھی کبھی قربانی کی ہے؟
(۳) صحابۂ کرام، تابعین و تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کا قربانی کے سلسلے میں کیا معمول رہا ہے؟
(۴) کیا صدقہ و خیرات قربانی کے قائم مقام ہوسکتا ہے؟
(ابو احسان کوثر نیازی، رحیم یار خان۔ عبدالقادر، کوٹلی پائیں، مانسہرہ۔ دیگرمتعدد سائلین)
(۱) قربانی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
(۲) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حج کے علاوہ بھی کبھی قربانی کی ہے؟
(۳) صحابۂ کرام، تابعین و تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کا قربانی کے سلسلے میں کیا معمول رہا ہے؟
(۴) کیا صدقہ و خیرات قربانی کے قائم مقام ہوسکتا ہے؟
(ابو احسان کوثر نیازی، رحیم یار خان۔ عبدالقادر، کوٹلی پائیں، مانسہرہ۔ دیگرمتعدد سائلین)
جواب: اس دور کے فتنوں میں سے ایک بہت بڑا فتنہ یہ ہے کہ مغرب سے مرعوب بلکہ ذہنی غلامی کا شکار ایک طبقہ دین اسلام کے یقینی طور پر ثابت شدہ احکام و شعائر کو مسلمانوں کی مادی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ سمجھ کر ان میں قطع و بیونت اور ردوبدل کے در پے رہتا ہے اور جہاں اس سے بھی کام بنتا نہیں دیکھتا تو سرے سے انکار کر بیٹھتا ہے، یوں امت مسلمہ کے درد اور خیرخواہی کے پردوں میں الحاد کا بہت بڑا دروازہ کھل جاتا ہے اور جاہل عوام احکام اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہوکر گمراہ ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات ایمان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ایسے حالات میں عوام پر لازم ہے کہ وہ دینی مسائل میں جدید تعلیم یافتہ مغرب زدہ طبقہ… جو دین کی مبادیات سے بھی جاہل ہے… کی بے سروپا باتوں پر کان دھرنے کے بجائے مستند علماء سے مضبوط تعلق قائم کریں اور احکام اسلام کے بارے میں ان سے رہنمائی حاصل کریں کہ یہ انہی کا منصب ہے۔
ایک مسلمان کا مطمح نظر بہرکیف احکام الٰہیہ کی بجا آوری ہے، خواہ کسی حکم کی علت اس کی عقل کی ڈبیا میں آئے یا نہ آئے۔ بس اتنا کافی ہے کہ وہ حکم اور عمل قابل قبول دلیل سے ثابت ہو۔
قربانی ایک مستقل واجب عبادت بلکہ شعائر اسلام میں سے ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی، حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم، تابعین و تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین و اسلاف رحمہم اﷲ تعالیٰ غرض پوری امت کا متوارث و مسلسل عمل بھی قربانی کرنے کا ہے، آج تک کسی نے نہ اسے حج اور مکہ معظمہ کے ساتھ خاص سمجھا ہے اور نہ صدقہ و خیرات کو اس کے قائم مقام سمجھا ہے۔ قربانی کے بارے میں جتنی آیات و احادیث ہیں وہ سب جانوروں کا خون بہانے سے متعلق ہیں، نہ کہ صدقہ و خیرات سے متعلق۔ نیز ان میں حج اور مکہ معظمہ کی کوئی تخصیص نہیں، بطورِ نمونہ چند آیات و احادیث
ملاحظہ ہوں: (۱)وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِّیَذْکُرُوْا اسْمَ اﷲِ عَلیٰ مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ۔(سورۂ حج: آیت ۳۴) ترجمہ: ہم نے (جتنے اہل شرائع گزرے ہیں ان میں سے) ہر امت کے لیے قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ وہ ان مخصوص چوپائوں پر اﷲ کا نام لیں جو اس نے ان کو عطا فرمائے ہیں۔
امام ابن کثیر و امام رازی رحمہما اﷲتعالیٰ وغیرہ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں تصریح فرمائی ہے کہ خون بہا کر جانوروں کی قربانی کا دستور شروع دن سے ہی تمام اَدیان و مذاہب میں چلا آ رہا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر:۳/۲۲۷، تفسیر کبیر۳/ ۳۴)
(۲)وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً ھُمْ نَاسِکُوْہُ۔ (سورۂ حج: آیت۶۷) ترجمہ: ہم نے ہر امت کے لیے ذبح کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے کہ وہ اس طریقہ پر ذبح کیا کرتے تھے۔ (۳)فَصَلِّ لِرَّبِکَ وَاْنَحْر۔(سورۂ کوثر۔ آیت:۲)
ترجمہ: سو آپ اپنے پروردگار کی نماز پڑھئے اور (اسی کے نام کی) قربانی کیجئے۔ (۴)عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: من وجد سعۃً فلم یضح فلا یقربن مصّلانا۔ (ابن ماجہ: ص۲۲۶)
ترجمہ: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے۔
(۵)عن ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما قال: أقام رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بالمدینۃ عشر سنین یضحی۔ (ترمذی:۱/۱۸۲)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے رہے۔
ان آیات و احادیث سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے: (۱) صاحبِ نصاب پر قربانی واجب ہے اور استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سخت ناراضی کا اظہار فرمایا، حتیٰ کہ اس کا عیدگاہ کے قریب آنا بھی پسند نہ فرمایا۔ (۲) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے ۱۰ سال میں ہر سال قربانی فرمائی، حالانکہ حج آپ نے صرف آخری سال فرمایا۔ معلوم ہوا کہ قربانی نہ حج کے ساتھ خاص ہے اور نہ مکہ معظمہ کے ساتھ، ورنہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں ۹ سال قربانی کیوں فرماتے؟
(۳) قربانی سے مقصد محض ناداروں کی مدد نہیں جو صدقہ و خیرات سے پورا ہوجائے، بلکہ قربانی میں مقصود جانور کا خون بہانا ہے، یہ عبادت اسی خاص طریقہ سے ادا ہوگی، محض صدقہ و خیرات کرنے سے نہ یہ عبادت ادا ہوگی، نہ اس کے مطلوبہ فوائد وثمرات حاصل ہوں گے، ورنہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے دور میں غربت و افلاس دورِ حاضر کی نسبت زیادہ تھا، اگر جانور ذبح کرنا مستقل عبادت نہ ہوتی تو وہ حضرات جانور ذبح کرنے کے بجائے ناداروں کے لیے چندہ جمع کرتے یا اتنی رقم رفاہ عامہ کے کاموں میں صرف فرماتے۔
قربانی کے بجائے صدقہ و خیرات کا مشورہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی نادان یہ مشورہ دے کہ آج سے نماز، روزہ کے بجائے اتنا صدقہ کردیا جائے، ظاہر ہے کہ اس سے نماز، روزہ کی عبادت ادا نہ ہوگی، اسی طرح صدقہ و خیرات سے قربانی کی مستقل عبادت بھی ادا نہ ہوگی۔
درحقیقت قربانی حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عظیم الشان عمل کی یادگار ہے جس میں انہوں نے اپنے لختِ جگر کو ذبح کرنے کے لیے لٹا دیا تھااور ہونہار فرزند حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بلاچوں وچرا حکمِ الٰہی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرکے ذبح ہونے کے لیے اپنی گردن پیش کردی تھی، مگر اﷲ تعالیٰ نے اپنا فضل فرما کر دنبے کو فدیہ بنادیا تھا۔ اس پر ذبح کرکے ہی عمل ہوسکتا ہے، محض صدقہ و خیرات سے اس عمل کی یاد تازہ نہیں ہوسکتی۔
نیز حافظ ابن کثیر و امام رازی رحمہما اﷲتعالیٰ نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما، حضرت عطائ، حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت حسن بصری، حضرت قتادہ، حضرت محمد بن کعب قرظی، حضرت ضحاک رحمہم اﷲتعالیٰ و غیرہم کا قول نقل کیا ہے کہ مشرکین عرب غیراﷲ کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے، اس لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ اپنے رب کے نام پر جانور ذبح کریں۔ (تفسیر ابن کثیر: ص۷۲۴، ج۴) اس بناپر جانور ذبح کرکے ہی اس حکم الٰہی کو پورا کیا جاسکتا ہے، صدقہ و خیرات اس کا بدل نہیں ہوسکتا۔ اﷲ تعالیٰ ملحدین کی تحریف سے دین کی حفاظت فرمائیں اور مسلمانوں کو مستند علماء کرام سے دین حق کی رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ واﷲ العاصم من جمیع الفتن وھوالموفق لما یحب و یرضیٰ۔ قربانی سے کیا سبق حاصل کیا جائے؟
(۱) قربانی حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جس عظیم الشان عمل کی یادگار ہے، اس کا دل و دماغ میں استحضار کیا جائے اور اس حقیقت کو سوچا جائے کہ یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضا جوئی کے لیے تھا۔ اور یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ اگر بیٹے ہی کو ذبح کرنے کا حکم باقی رہتا تو ہم بخوشی اس کی تعمیل کرتے۔ ہر والد کا جذبہ یہ ہو کہ میں ضرور اپنے لخت ِجگر کو قربان کرتا اور ہر بیٹے کا جذبہ یہ ہو کہ میں قربان ہونے کے لیے بدل و جان راضی ہوتا اور یہ عزم ہونا چاہیے کہ اگر یہ حکم آج نازل ہوجائے تو ہم اس میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کریں گے۔
(۲) قربانی کی اصل روح اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کردے۔ جانور ذبح کرکے قربانی دینے کے حکم میں یہی حکمت پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں تمام خواہشات نفسانیہ کو ایک ایک کرکے ذبح کرو۔ اگر کوئی شخص جانور کی قربانی تو بڑے شوق سے کرتا ہے مگر خواہش نفس اور گناہوں کو نہیں چھوڑتا، نہ اس کی فکر ہے تو اگرچہ واجب تو اس کے ذمّہ سے ساقط ہوگیا، مگر قربانی کی حقیقت و روح سے محروم رہا، اس لیے قربانی کی ظاہری صورت کے ساتھ ساتھ اس کی حقیقت کو حاصل کرنے کا عزم، کوشش اور دُعابھی جاری رہنا چاہیے۔
(۳) حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صرف ایک جانور کی قربانی نہیں کی، بلکہ پوری زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزارا، جو حکم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا فوراً تعمیل کی۔ جان، مال، ماں باپ، وطن و مکان، لخت جگر غرض سب کچھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں قربان فرمایا۔ ہمیں بھی اپنے اندر یہی جذبہ پیدا کرنا چاہیے کہ دین کا جو تقاضا بھی سامنے آئے اور اللہ تعالیٰ کا جو حکم بھی سامنے آئے اس پر عمل کریں گے۔ اپنے اعزہ و احباب، بیوی بچوں، ماں باپ، خاندان، قوم کسی چیز کو بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں ترجیح نہیں دیں گے۔
سارا جہاں ناراض ہو پروا نہ چاہیے
مدنظر تو مرضیٔ جاناناں چاہیے
بس اس نظر سے دیکھ کر تو کر یہ فیصلہ
کیا کیا کرنا چاہیے کیا کیا نہ چاہیے
(۴) اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرما کر دنبے کو حضرت اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فدیہ بنادیا اور اس کی بناپر اب بیٹے کی قربانی کا حکم نہیں ہے، مگر جہاد فی سبیل اللہ میں اپنی جان اور اولاد کو قربان کرنے کا حکم تو ہمیشہ کیلیے ہے۔ جہاد تو قیامت تک جاری رہے گا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار جہاد کا حکم فرمایا ہے اور آج یہ حکم پوری تاکید کے ساتھ امت مسلمہ کی طرف متوجہ ہے۔ کیا کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی اس آواز پر لبیک کہے اور دنیا بھر کی مظلوم مائوں، بہنوں کی سسکیوں پر کان دھرنے اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جان کی بازی لگانے کی تڑپ دل میں پیدا کرے؟؟؟
مذکورہ شرائط کا پورے وقت میں پایا جانا ضروری نہیں:
مذکورہ شرائط کا قربانی کے پورے وقت میں پایا جانا ضروری نہیں، بلکہ وقت وجوب کے آخری جزومیں بھی اگر یہ شرطیں پائی گئیں تو اس پر قربانی واجب ہے۔ یعنی اگر ۱۲ ذی الحجہ کی شام میں غروب آفتاب سے ذرا پہلے کوئی کافر مسلمان ہوگیا، یا مسافر وطن پہنچ گیا، یا غلام آزاد ہوگیا، یا بچہ بالغ ہوگیا، مجنون کو صحت ہوگئی، یا فقیر صاحب نصاب بن گیا تو ان پر قربانی واجب ہوگئی، اس میں مردوزن کا حکم یکساں ہے۔
آخر وقت میں کوئی شرط فوت ہوگئی: اگر ابتداء ایام اضحیہ میں کسی پر قربانی واجب تھی، مگر آخر میں کوئی شرط فوت ہوگئی تو قربانی واجب نہیں رہی، مثلاً: مالدار تنگ دست ہوگیا، یا مقیم مسافر بن گیا تو ان پر قربانی واجب نہیں رہی۔
فقیر قربانی کے بعد مالدار ہوگیا: اگر کسی فقیر نے قربانی کردی، پھر آخر وقت میں مالدار ہوگیا، یعنی بقدر نصاب مال اسے حاصل ہوگیا تو راجح قول کے مطابق اس پر نئے سرے سے قربانی کرنا واجب نہیں۔
حاجی مسافر ہو تو قربانی واجب نہیں: اگر کسی شخص کا قیام مکہ مکرمہ میں منیٰ کے 4، 5 دنوں کو ملاکر 15 دن یا اس سے زیادہ ہو تو وہ مقیم ہے۔
اگر وہ صاحب نصاب ہے تو اس پر قربانی واجب ہے، جسے وہ وہاں بھی ادا کرسکتا ہے اور اپنے وطن میں کسی کو وکیل بناکر بھی ادا کرسکتا ہے اور اگر مکہ مکرمہ میں قیام 15 دن سے کم ہو، پھر مدینہ منورہ جانا ہو یا وطن واپس لوٹنا ہو تو وہ مسافر ہے، اس پر قربانی واجب نہیں۔
ملحوظہ: اب چونکہ منیٰ مکہ مکرمہ کا حصہ ہوگیا، اس لیے منیٰ میں قیام کے دن شامل کرکے مقیم یا مسافر ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ مندرجہ بالا مسئلہ اسی تبدیل شدہ صورتِ حال پر مبنی ہے۔ واـضح رہے کہ حج تمتع و قران کرنے والے پر بطور شکر الگ قربانی واجب ہوتی ہے، جس کا وہیں کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ایسے حالات میں عوام پر لازم ہے کہ وہ دینی مسائل میں جدید تعلیم یافتہ مغرب زدہ طبقہ… جو دین کی مبادیات سے بھی جاہل ہے… کی بے سروپا باتوں پر کان دھرنے کے بجائے مستند علماء سے مضبوط تعلق قائم کریں اور احکام اسلام کے بارے میں ان سے رہنمائی حاصل کریں کہ یہ انہی کا منصب ہے۔
ایک مسلمان کا مطمح نظر بہرکیف احکام الٰہیہ کی بجا آوری ہے، خواہ کسی حکم کی علت اس کی عقل کی ڈبیا میں آئے یا نہ آئے۔ بس اتنا کافی ہے کہ وہ حکم اور عمل قابل قبول دلیل سے ثابت ہو۔
قربانی ایک مستقل واجب عبادت بلکہ شعائر اسلام میں سے ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی، حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم، تابعین و تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین و اسلاف رحمہم اﷲ تعالیٰ غرض پوری امت کا متوارث و مسلسل عمل بھی قربانی کرنے کا ہے، آج تک کسی نے نہ اسے حج اور مکہ معظمہ کے ساتھ خاص سمجھا ہے اور نہ صدقہ و خیرات کو اس کے قائم مقام سمجھا ہے۔ قربانی کے بارے میں جتنی آیات و احادیث ہیں وہ سب جانوروں کا خون بہانے سے متعلق ہیں، نہ کہ صدقہ و خیرات سے متعلق۔ نیز ان میں حج اور مکہ معظمہ کی کوئی تخصیص نہیں، بطورِ نمونہ چند آیات و احادیث
ملاحظہ ہوں: (۱)وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِّیَذْکُرُوْا اسْمَ اﷲِ عَلیٰ مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ۔(سورۂ حج: آیت ۳۴) ترجمہ: ہم نے (جتنے اہل شرائع گزرے ہیں ان میں سے) ہر امت کے لیے قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ وہ ان مخصوص چوپائوں پر اﷲ کا نام لیں جو اس نے ان کو عطا فرمائے ہیں۔
امام ابن کثیر و امام رازی رحمہما اﷲتعالیٰ وغیرہ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں تصریح فرمائی ہے کہ خون بہا کر جانوروں کی قربانی کا دستور شروع دن سے ہی تمام اَدیان و مذاہب میں چلا آ رہا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر:۳/۲۲۷، تفسیر کبیر۳/ ۳۴)
(۲)وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً ھُمْ نَاسِکُوْہُ۔ (سورۂ حج: آیت۶۷) ترجمہ: ہم نے ہر امت کے لیے ذبح کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے کہ وہ اس طریقہ پر ذبح کیا کرتے تھے۔ (۳)فَصَلِّ لِرَّبِکَ وَاْنَحْر۔(سورۂ کوثر۔ آیت:۲)
ترجمہ: سو آپ اپنے پروردگار کی نماز پڑھئے اور (اسی کے نام کی) قربانی کیجئے۔ (۴)عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: من وجد سعۃً فلم یضح فلا یقربن مصّلانا۔ (ابن ماجہ: ص۲۲۶)
ترجمہ: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے۔
(۵)عن ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما قال: أقام رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بالمدینۃ عشر سنین یضحی۔ (ترمذی:۱/۱۸۲)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے رہے۔
ان آیات و احادیث سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے: (۱) صاحبِ نصاب پر قربانی واجب ہے اور استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سخت ناراضی کا اظہار فرمایا، حتیٰ کہ اس کا عیدگاہ کے قریب آنا بھی پسند نہ فرمایا۔ (۲) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے ۱۰ سال میں ہر سال قربانی فرمائی، حالانکہ حج آپ نے صرف آخری سال فرمایا۔ معلوم ہوا کہ قربانی نہ حج کے ساتھ خاص ہے اور نہ مکہ معظمہ کے ساتھ، ورنہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں ۹ سال قربانی کیوں فرماتے؟
(۳) قربانی سے مقصد محض ناداروں کی مدد نہیں جو صدقہ و خیرات سے پورا ہوجائے، بلکہ قربانی میں مقصود جانور کا خون بہانا ہے، یہ عبادت اسی خاص طریقہ سے ادا ہوگی، محض صدقہ و خیرات کرنے سے نہ یہ عبادت ادا ہوگی، نہ اس کے مطلوبہ فوائد وثمرات حاصل ہوں گے، ورنہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے دور میں غربت و افلاس دورِ حاضر کی نسبت زیادہ تھا، اگر جانور ذبح کرنا مستقل عبادت نہ ہوتی تو وہ حضرات جانور ذبح کرنے کے بجائے ناداروں کے لیے چندہ جمع کرتے یا اتنی رقم رفاہ عامہ کے کاموں میں صرف فرماتے۔
قربانی کے بجائے صدقہ و خیرات کا مشورہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی نادان یہ مشورہ دے کہ آج سے نماز، روزہ کے بجائے اتنا صدقہ کردیا جائے، ظاہر ہے کہ اس سے نماز، روزہ کی عبادت ادا نہ ہوگی، اسی طرح صدقہ و خیرات سے قربانی کی مستقل عبادت بھی ادا نہ ہوگی۔
درحقیقت قربانی حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عظیم الشان عمل کی یادگار ہے جس میں انہوں نے اپنے لختِ جگر کو ذبح کرنے کے لیے لٹا دیا تھااور ہونہار فرزند حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بلاچوں وچرا حکمِ الٰہی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرکے ذبح ہونے کے لیے اپنی گردن پیش کردی تھی، مگر اﷲ تعالیٰ نے اپنا فضل فرما کر دنبے کو فدیہ بنادیا تھا۔ اس پر ذبح کرکے ہی عمل ہوسکتا ہے، محض صدقہ و خیرات سے اس عمل کی یاد تازہ نہیں ہوسکتی۔
نیز حافظ ابن کثیر و امام رازی رحمہما اﷲتعالیٰ نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما، حضرت عطائ، حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت حسن بصری، حضرت قتادہ، حضرت محمد بن کعب قرظی، حضرت ضحاک رحمہم اﷲتعالیٰ و غیرہم کا قول نقل کیا ہے کہ مشرکین عرب غیراﷲ کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے، اس لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ اپنے رب کے نام پر جانور ذبح کریں۔ (تفسیر ابن کثیر: ص۷۲۴، ج۴) اس بناپر جانور ذبح کرکے ہی اس حکم الٰہی کو پورا کیا جاسکتا ہے، صدقہ و خیرات اس کا بدل نہیں ہوسکتا۔ اﷲ تعالیٰ ملحدین کی تحریف سے دین کی حفاظت فرمائیں اور مسلمانوں کو مستند علماء کرام سے دین حق کی رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ واﷲ العاصم من جمیع الفتن وھوالموفق لما یحب و یرضیٰ۔ قربانی سے کیا سبق حاصل کیا جائے؟
(۱) قربانی حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جس عظیم الشان عمل کی یادگار ہے، اس کا دل و دماغ میں استحضار کیا جائے اور اس حقیقت کو سوچا جائے کہ یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضا جوئی کے لیے تھا۔ اور یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ اگر بیٹے ہی کو ذبح کرنے کا حکم باقی رہتا تو ہم بخوشی اس کی تعمیل کرتے۔ ہر والد کا جذبہ یہ ہو کہ میں ضرور اپنے لخت ِجگر کو قربان کرتا اور ہر بیٹے کا جذبہ یہ ہو کہ میں قربان ہونے کے لیے بدل و جان راضی ہوتا اور یہ عزم ہونا چاہیے کہ اگر یہ حکم آج نازل ہوجائے تو ہم اس میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کریں گے۔
(۲) قربانی کی اصل روح اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کردے۔ جانور ذبح کرکے قربانی دینے کے حکم میں یہی حکمت پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں تمام خواہشات نفسانیہ کو ایک ایک کرکے ذبح کرو۔ اگر کوئی شخص جانور کی قربانی تو بڑے شوق سے کرتا ہے مگر خواہش نفس اور گناہوں کو نہیں چھوڑتا، نہ اس کی فکر ہے تو اگرچہ واجب تو اس کے ذمّہ سے ساقط ہوگیا، مگر قربانی کی حقیقت و روح سے محروم رہا، اس لیے قربانی کی ظاہری صورت کے ساتھ ساتھ اس کی حقیقت کو حاصل کرنے کا عزم، کوشش اور دُعابھی جاری رہنا چاہیے۔
(۳) حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صرف ایک جانور کی قربانی نہیں کی، بلکہ پوری زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزارا، جو حکم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا فوراً تعمیل کی۔ جان، مال، ماں باپ، وطن و مکان، لخت جگر غرض سب کچھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں قربان فرمایا۔ ہمیں بھی اپنے اندر یہی جذبہ پیدا کرنا چاہیے کہ دین کا جو تقاضا بھی سامنے آئے اور اللہ تعالیٰ کا جو حکم بھی سامنے آئے اس پر عمل کریں گے۔ اپنے اعزہ و احباب، بیوی بچوں، ماں باپ، خاندان، قوم کسی چیز کو بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں ترجیح نہیں دیں گے۔
سارا جہاں ناراض ہو پروا نہ چاہیے
مدنظر تو مرضیٔ جاناناں چاہیے
بس اس نظر سے دیکھ کر تو کر یہ فیصلہ
کیا کیا کرنا چاہیے کیا کیا نہ چاہیے
(۴) اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرما کر دنبے کو حضرت اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فدیہ بنادیا اور اس کی بناپر اب بیٹے کی قربانی کا حکم نہیں ہے، مگر جہاد فی سبیل اللہ میں اپنی جان اور اولاد کو قربان کرنے کا حکم تو ہمیشہ کیلیے ہے۔ جہاد تو قیامت تک جاری رہے گا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار جہاد کا حکم فرمایا ہے اور آج یہ حکم پوری تاکید کے ساتھ امت مسلمہ کی طرف متوجہ ہے۔ کیا کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی اس آواز پر لبیک کہے اور دنیا بھر کی مظلوم مائوں، بہنوں کی سسکیوں پر کان دھرنے اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جان کی بازی لگانے کی تڑپ دل میں پیدا کرے؟؟؟
مذکورہ شرائط کا پورے وقت میں پایا جانا ضروری نہیں:
مذکورہ شرائط کا قربانی کے پورے وقت میں پایا جانا ضروری نہیں، بلکہ وقت وجوب کے آخری جزومیں بھی اگر یہ شرطیں پائی گئیں تو اس پر قربانی واجب ہے۔ یعنی اگر ۱۲ ذی الحجہ کی شام میں غروب آفتاب سے ذرا پہلے کوئی کافر مسلمان ہوگیا، یا مسافر وطن پہنچ گیا، یا غلام آزاد ہوگیا، یا بچہ بالغ ہوگیا، مجنون کو صحت ہوگئی، یا فقیر صاحب نصاب بن گیا تو ان پر قربانی واجب ہوگئی، اس میں مردوزن کا حکم یکساں ہے۔
آخر وقت میں کوئی شرط فوت ہوگئی: اگر ابتداء ایام اضحیہ میں کسی پر قربانی واجب تھی، مگر آخر میں کوئی شرط فوت ہوگئی تو قربانی واجب نہیں رہی، مثلاً: مالدار تنگ دست ہوگیا، یا مقیم مسافر بن گیا تو ان پر قربانی واجب نہیں رہی۔
فقیر قربانی کے بعد مالدار ہوگیا: اگر کسی فقیر نے قربانی کردی، پھر آخر وقت میں مالدار ہوگیا، یعنی بقدر نصاب مال اسے حاصل ہوگیا تو راجح قول کے مطابق اس پر نئے سرے سے قربانی کرنا واجب نہیں۔
حاجی مسافر ہو تو قربانی واجب نہیں: اگر کسی شخص کا قیام مکہ مکرمہ میں منیٰ کے 4، 5 دنوں کو ملاکر 15 دن یا اس سے زیادہ ہو تو وہ مقیم ہے۔
اگر وہ صاحب نصاب ہے تو اس پر قربانی واجب ہے، جسے وہ وہاں بھی ادا کرسکتا ہے اور اپنے وطن میں کسی کو وکیل بناکر بھی ادا کرسکتا ہے اور اگر مکہ مکرمہ میں قیام 15 دن سے کم ہو، پھر مدینہ منورہ جانا ہو یا وطن واپس لوٹنا ہو تو وہ مسافر ہے، اس پر قربانی واجب نہیں۔
ملحوظہ: اب چونکہ منیٰ مکہ مکرمہ کا حصہ ہوگیا، اس لیے منیٰ میں قیام کے دن شامل کرکے مقیم یا مسافر ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ مندرجہ بالا مسئلہ اسی تبدیل شدہ صورتِ حال پر مبنی ہے۔ واـضح رہے کہ حج تمتع و قران کرنے والے پر بطور شکر الگ قربانی واجب ہوتی ہے، جس کا وہیں کرنا ضروری ہوتا ہے۔
⬆⬆ Upar Share's Button say Whatsapp , Facebook , Twitter , Google+ Par share Zaror Karen
Jazak Allah Khair
==========
No comments:
Write comments