دین پر عمل کرنے کے لئے کیا کسی امام کی پیروی کرناضروری ہے؟

 

 
deen.par.aml.karne.k.liye.kis.imam.ki.parwari.zarori.hai

 

غیر مقلدین (نام نہاد اہل حدیث ) کی فقہ سے ناراضگی، شدت اور گمراہی کا سبب دو غلطیاں ہیں، جن میں ان کا ضدی اور ہٹ دھرم طبقہ دیدہ و دانستہ مبتلا ہے اور مخلص طبقہ ان ضدی اور غالی لوگوں کے فریب اور دھوکہ کا شکار ہے۔


اگر ان غلطیوں سے یہ لوگ تائب ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کے دوستوں اور پیاروں حضرات ائمہ مجتہدین، ماہرین قرآن و حدیث رحمہم اللہ کے بغض و کینہ اور مخالفت سے محفوظ ہوجائیں اور من عادی لی و لیا فقد اذنتہ بالحرب یعنی جس نے میرے پیارے دوست سے دشمنی کی اس سے میری (اللہ تعالیٰ کی) طرف سے اعلان جنگ ہے، کی شدید وعید سے بچ جائیں گے، ہم مختصراً ان دونوں غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کا مدلل بطلان قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنا چاہیں گے۔    ؎        

شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات

غلطی نمبر:۱

چونکہ مجتہدین معصوم نہیں اس لئے ہم ان کی تقلید نہیں کرتے بلکہ تحقیق کرکے ان کے صحیح اور غلط اجتہادات کو جانچتے ہیں تاکہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہا جائے۔

غلطی نمبر:۲

ہر اختلاف مذموم اور برا ہے، خواہ وہ اصول اور عقائد کا اختلاف ہو یا فروع و اعمال کا یا سنت و بدعت کا، چونکہ ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ میں بھی فروعی مسائل میں اختلاف ہے اس وجہ سے ہم غیر مقلدین ان ائمہ سے بھی ناراض ہیں۔

غلطی نمبر:۱ کا بطلان

نام نہاد اہلحدیث میں یہ غلطی ان کے بڑے بھائی منکرینِ حدیث سے آئی ہے، انہوں نے انکارِ حدیث کے لئے آسان اور کامیاب بہانہ یہ تلاش کیا ہے، چونکہ محدثین معصوم نہیں اس لئے ہم تحقیق کرکے ان کی غلطی کو غلطی اور صحیح کو صحیح کہنا چاہتے ہیں، غیر مقلدین نے بعینہ یہی بات ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے متعلق کہنا شروع کیا کہ یہ معصوم نہیں ، لہٰذا ہمیں پرکھنے کا حق دیا جائے۔

قارئین کرام!     اتنی بات تو صحیح اور یقینی ہے کہ حضرات ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ معصوم نہیں لیکن یہ بات ادھوری ہے، جیسے حضرات ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ معصوم نہیں غیر مقلدین بھی تو معصوم نہیں، مگر یہاں بات معصوم اور غیر معصوم کی نہیں بات اہل اور نااہل کی ہے کہ کون تحقیق کا اہل ہے اور کون نہیں؟ جیسے محدثین اپنے فن میں اہل ہیں اور منکرینِ حدیث (نام نہاد اہلِ قرآن) نا اہل ہیں خواہ اپنی جماعت میں کتنے بڑے مصنف ہوں، جیسے محمد اسلم جیراج پوری سابق اہلحدیث، غلام احمد سابق اہلحدیث، لیکن محدثین کے سامنے فن حدیث میں نااہل ہیں، ان کی باتوں کو تحقیق نہیں کہا جائے گا بالکل نااہل کی منازعت کہا جائے گا جو شرعاً گناہِ کبیرہ ہے، اسی طرح ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ اور غیر مقلدین میں یہ فرق نہیں کہ مجتہدین معصوم ہیں اور غیر مقلدین معصوم ہیں، بلکہ فرق یہ ہے کہ وہ لوگ باجماع امت اہلِ اجتہاد سے ہیں اور یہ لوگ باجماع امت نا اہل ہیں، اس لئے ان نااہلوں کا حضرات مجتہدین رحمہم اللہ سے الجھنا نااہل کی منازعت ہے، حضور ﷺ جب بیعت لیتے تو اس میں یہ عہد بھی لیتے : د"ان لا تنازع الامر اھلہ۔ کہ ہم اہل امر سے منازعت (جھگڑا اور اختلاف) نہیں کریں گےد"، تعجب ہے کہ حدیث جس کو منازعت اور بیجا اختلاف قرار دے یہ لوگ اس کا نام تحقیق رکھیں۔

الحاصل مجتہدین رحمہم اللہ کی مخالفت کا نام تحقیق نہیں بلکہ نااہل کی منازعت ہے۔

کیا نااہل کو تحقیق و استنباط کی اجازت ہے؟

نااہل کا معاملہ مجتہد کے معاملہ سے بالکل برعکس ہے، مجتہد جو کہ اہل ہے سے خطا بھی ہوجائے تو اُسے اجر ملتا ہے اور نااہل جیسے غیر مقلدین صحیح بات بھی پالے تو اُسے اجر کے بجائے گناہ ہوگا، آپﷺ کا ارشاد ہے:

عن ابن عباسؓ عن النبی ﷺ قال: اتقوا الحدیث عنی الا ما علمتم فمن کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار و من قال فی القرآن برأیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار ۔

(ترمذی:۲/۱۲۳)

د"نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھ سے صرف وہی باتیں نقل کیا کرو جو تمہیں یقینی طور پر معلوم ہوں، اس لئے کہ جس نے قصداً میری طرف جھوٹی بات منسوب کی اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالیا اور جو قرآن کریم میں اپنی رائے چلائے گا اس نے بھی اپنے لئے ٹھکانہ جہنم میں بنالیاد"۔

اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا:

عن جندب بن عبد اللہؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ: من قال فی القرآن برأیہ فاصاب فقد اخطا۔

(ترمذی:۲/۱۲۳)

د"یعنی جس نے قرآن میں اپنی رائے لگائی اور درست بات بھی پالی تو بھی وہ گناہگار ہوگاد"۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: د"تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ مجتہد ہر اجتہاد میں اجر پاتا ہے، اگر ا سکا اجتہاد درست نکلا تو دو اجر کا مستحق ہے، ایک اجر اجتہاد کا دوسرا اصابت کا اور اگر اجتہاد خطا نکلا تو بھی ایک اجر ملے گا، ہاں! جو نااہل ہو اس کو اجتہاد سے حکم کرنا کسی حال میں جائز نہیں، بلکہ وہ گناہگار ہے، اس کا حکم نافذ بھی نہ ہوگا اگرچہ اس کا حکم حق کے موافق ہو یا مخالف، کیونکہ اس کا حق کو پالینا محض اتفاقی ہے، کسی اصلِ شرعی پر مبنی نہیں، پس وہ تمام احکام میں گناہگار ہے، حق کے موافق ہو یا مخالف اور اس کے نکالے ہوئے تمام احکام مردود ہیں، اس کا کوئی عذر شرعاً مقبول نہیںد"۔

(شرح نووی علی بہامش صحیح مسلم:۲/۷۶)

افسوس ہے کہ منکرینِ حدیث اور غیر مقلدین نے اس گناہ کبیرہ جس کا ٹھکانہ دوزخ کے سوا کہیں نہیں کا نام تحقیق رکھا ہے اور اس کو عمل بالقرآن اور عمل بالحدیث کہتے ہیں۔

اندھی تقلید کیا ہے؟

نام نہاد اہلحدیث کہتے ہیں کہ حضرات ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ کی تقلید اندھی تقلید ہے، لہٰذا اسے چھوڑئیے اور ہمارے ساتھ مل جائیے، قارئین کرام! ان نااہل نام نہاداہلحدیث کی جہالت کی انتہاء دیکھئے! انہیں تو اندھی تقلید کا معنیٰ تک نہیں معلوم، اندھی تقلید اس کو کہتے ہیں کہ اندھا اندھے کے پیچھے چلے، تو لازماً دونوں کسی کھائی میں گرجائیں، گے اگر اندھا کسی آنکھوں والے کے پیچھے چلے تو آنکھ والا اپنی آنکھ کی برکت سے اپنے آپ کو بھی اور اس اندھے کو بھی ہر کھائی سے بچاکر لیجائے گا اور منزل تک پہنچادے گا، حضرات ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ معاذ اللہ اندھے نہیں ہیں، عارف اور بصیر ہیں، البتہ اندھی تقلید کا شکار وہ لوگ ہیں جو خود بھی اندھے ہیں اور ان کے پیشوا بھی اجتہاد کی آنکھ سے محروم ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عن عبد اللہ بن عمروؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ: ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد، و لکن یقبض العلم بقبض لعلماء حتی اذا لم یبق عالما اتخذ الناس رؤوساجھالا فسئلوا بغیر علم فضلوا و اضلوا۔

(مشکوٰۃ:۱/۳۳)

د"جو جاہل کو دینی پیشوا بنائے تو وہ جاہل خود بھی گمراہ ہوگا اور اپنے ماننے والے کو بھی گمراہ کرے گاد"۔

یہ اندھی تقلید ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں پیغمبرِ معصوم ﷺ اور مجتہدِ ماجور رحمہم اللہ کی تحقیق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور فتنوں سے محفوظ فرمائیں۔ آمین

تحقیق اور استنباط نااہل کا کام کیوں نہیں.....!

قارئین کرام! تحقیق نااہل کا مقام نہیں، کیونکہ اس میں جب تک تین باتوں کی تحقیق مکمل نہ ہوجائے اُسے تحقیق نہیں کہا جاسکتا، وہ تین باتیں جن کی تحقیق ضروری ہے یہ ہیں:

۱۔       د"دلیلد" مثلاً حدیث جس سے حکم ثابت کیا جاتا ہے ، وہ خود ثابت اور صحیح ہو۔

۲۔      د"اس دلیلد" مثلاً حدیث سے جو سمجھا جاتا ہے وہی مراد رسول اللہ ﷺ ہو، وہ معنیٰ اور مطلب مرادِ رسول ﷺ کے خلاف نہ ہو۔

۳۔      اگر اس دلیل و حدیث کے معارض کوئی اور حدیث ہو تو اس تعارض اور اختلاف کو رفع کیا جائے، حضرات محدثین رحمہم اللہ نے ساری عمر پہلی بات کی تحقیق میں صرف فرمادی، مرادِ رسولﷺ کو سمجھنے کو اور رفع تعارض کو مجتہدین کے حوالہ کردیا، البتہ مجتہدین کی تحقیق کامل ہوتی ہے، وہ نبوت، دلالت یعنی مرادِ رسولﷺ اور رفع تعارض تینوں کی پوری پوری تحقیق کرتے ہیں، اسی لئے ان آخری دو باتوں میں خود حضرات محدثین رحمہم اللہ بھی حضرات مجتہدین رحمہم اللہ کی تقلدین کرتے ہیں، چنانچہ اسی تقلید کا نتیجہ ہے کہ حضرات محدثین علیہم الرحمہ کا ذکر چار ہی قسموں کی کتابوں میں ملتا ہے:۔۱۔ طبقاتِ حنفیہ۔ ۲۔طبقاتِ مالکیہ۔ ۳۔طبقاتِ شافعیہ۔ ۴۔طبقاتِ حنابلہ، طبقات غیر مقلدین نامی کوئی کتاب محدثین کے حالات میں آج تک کسی مسلم مؤرخ و محدث نے نہیں لکھی۔

قارئین عظام!     چونکہ ان تین باتوں کی تحقیق اہل فن اور ماہر کتاب و سنت ہی کا کام ہے نہ کہ نااہل کا، نااہل میں یہ صلاحیت اور استعداد ہی نہیں کہ ان تین باتوں سے متعلق کچھ کرسکے، جبکہ ان کے بغیر تحقیق نامکمل ہی رہتی ہے۔

نااہل کا مقام مجتہد کی تقلید ہے نہ کہ ان پر اعتراض.....!

چونکہ نااہل نہ تو خود تحقیق و استنباط کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کے لئے تحقیق کرنا جائز ہے، اس لئے اس پر واجب اور ضروری ہے کہ مسائل اجتہادیہ میں مجتہد اور ماہر شریعت کی تقلید کرے، مجتہد کا اعلان ہے کہ ہم پہلے مسئلہ قرآن پاک سے لیتے ہیں، وہاں نہ ملے تو سنت سے، وہاں نہ ملے تو اجماعِ صحابہؓ، اگر حضرات صحابہؓ میں اختلاف ہوجائے تو جس طرف حضرات خلفائے راشدینؓ ہوں اُسے لیتے ہیں، اگر یہاں بھی نہ ملے تو اجتہادی قاعدوں سے مسئلہ کا حکم تلاش کرلیتے ہیں، جس طرح حساب دان ہر نئے سوال کا جواب حساب کے قواعد کی مدد سے معلوم کرلیتا ہے اور وہ جواب اس کی ذاتی رائے نہیں ہوتا بلکہ فنِ حساب کا ہی جواب ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ جب حساب دان کے سامنے سوال آئے گا تو وہ خود حساب کے قواعد سے سوال کا جواب نکال لے گا اور جس کو حساب کے قاعدے نہیں آتے وہ حساب دان سے جواب پوچھ لے گا، اسی طرح مسائلِ اجتہادیہ میں کتاب و سنت پر عمل کرنے کے بھی دو طریقے ہیں، جو شخص مجتہد ہوگا وہ خود قواعدِ اجتہادیہ سے مسئلہ تلاش کرکے کتاب و سنت پر عمل کرے گا اور غیر مجتہد یہ سمجھ کر کہ میں خود کتاب و سنت سے مسئلہ استنباط کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا، اس لئے کتاب و سنت کے ماہر مجتہد سے پوچھ لوں کہ اس میں کتاب و سنت کا کیا حکم ہے؟ اس طرح عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں اور مقلد ان مسائل کو مجتہد کی ذاتی رائے سمجھ کر عمل نہیں کرتا، بلکہ یہ سمجھ کر کہ مجتہد نے ہمیں مراد خدائے تعالیٰ اور مرادِ رسول ﷺ سے آگاہ کیا ہے۔

نااہل کن مسائل میں مجتہد کی تقلید کرے گا؟

قارئین کرام!     مسائل اجتہادیہ میں نااہل یعنی غیر مجتہد مجتہد کی تقلید کرے گا، تفصیل اس کی یہ ہے کہ تقلید صرف مسائلِ اجتہادیہ ہی میں کی جاتی ہے اور حدیثِ معاذ رضی اللہ عنہ (جس کو نواب صدیق خان غیر مقلد حدیثِ مشہور فرماتے ہیں) اجتہاد اور اس کے مقام کے تعین کے لئے کافی دلیل ہے کہ جو مسئلہ صراحتاً کتاب و سنت میں نہ ہو تو اس کا حکم رائے اور اجتہاد کے اصولوں سے کتاب و سنت سے مجتہد اخذ کرے گا۔

نااہل کو تحقیق کا حق نہیں... اس کی دلیل کیا ہے؟

قارئین کرام!     جس طرح دنیا میں ہر فن میں اس کی بات مانی جاتی ہے جو اس فن میں کامل مہارت رکھتا ہو، نہ کہ فن سے ناآشنا کی، مثلاً ہیرے جواہرات کے بارے میں ماہر جوہری کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ کسی موچی کی، سونے کے بارے میں کسی ماہر سنار کی تحقیق مانی جائے گی کہ کسی لوہار کی، قانون میں تحقیقی بات ماہر قانون دان کی ہوگی نہ کہ کسی مداری کی، اسی طرح دین میں بھی دین کے ماہرین کی بات تحقیقی مانی جائے گی، ان ہی کے مستنبطہ اور نکالے ہوئے مسائل کو قبول کیا جائے گا نہ کہ ہر کندۂ ناتراش اور نادان کی بات کا اعتبار ہوگا۔

دلیل

جس اللہ تعالیٰ نے تحقیق کا حکم دیا ہے اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی واضح طور پر فرمادی کہ تحقیق کا حق کس کس کا ہے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے درج ذیل ارشاد سے بخوبی معلوم ہتا ہے کہ تحقیق کا حق صرف دو ہستیوں وک ہے، ایک اللہ کے رسولﷺ ہیں اور دوسری ہستی مجتہد کی ہے، ان دو علاوہ سب نااہل ہیں، جن کو تحقیق کا حق نہیں۔

آیت کریمہ

وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا o

د"اور جب ان لوگوں کو کسی امر کی خبر پہنچتی ہے خواہ امن ہو یا خوف، تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اور اگر یہ لوگ اس کو رسول ﷺ کے اور جو ان میں سے ایسے امور کو سمجھتے ہیں ان کے اوپر حوالہ رکھتے تو اس کو وہ حضرات و تو پہچان ہی لیتے جو ان میں اس کی تحقیق کرلیا کرتے ہیں اور اگر تم لوگوں پر خدا کا فضل اور رحمت نہ ہوتی تو تم سب کے سب شیطان کے پیرو ہوجاتے ، بجز تھوڑے سے آدمیوں کےد"۔

آیت کریمہ کی مختصر تشریح

مفسر قرآن حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: د"یعنی ان منافقوں اور کم سمجھ مسلمانوں کی ایک خرابی یہ ہے کہ جب کوئی بات امن کی پیش آتی ہے (مثلاً رسول اکرمﷺ کا کسی کا صلح کا قصد فرمانا یا لشکر اسلام کی فتح کی خبر سننا) یا کوئی خبر خوفناک سن لیتے تو ہیں (جیسے دشمنوں کا کہیں جمع ہونا یا مسلمانوں کی شکست کی خبر آنا) تو ان کو بلا تحقیق کئے یہ مشہور کردیتے ہیں اور اس میں اکثر فساد و نقصان مسلمانوں کو پیش آجاتا ہے، منافق ضرر رسانی کی غرض سے اور کم سمجھ مسلمان کم فہمی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں، کہیں سےکچھ خبر آئے تو چاہئے کہ اول سردار تک اور اس کے نائبوں تک پہنچائیں، جب ہو اس خبر کی تحقیق اور تسلیم کرلیں تو ان کے کہنے کے موافق اس کو کہیں نقل کریں اور اس پر عمل کریںد"۔

طرزِ استدلال

اس آیت کریمہ میں تحقیق کا حق پہلے نمبر حضرت رسول اکرمﷺ کو دیا گیا ہے اور آپﷺ کے بعد اہل استنباط کو، جن کو اصطلاح میں مجتہدین کہتے ہیں۔

استنباط کے معنیٰ

استنباط کا معنیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو پانی زمین کی تہہ میں پیدا کرکے عوام کی نظر سے چھپا رکھا ہے اس پانی کو کنواں وغیرہ بناکر نکال لینا۔

قارئین کرام!     قرآن کریم کی یہ حد درجہ کی بلاغت ہے کہ اجتہاد اور فقہ کو لفظ استنباط کہہ کر ایسی عام فہم مثال سے اجتہاد اور فقہ کو سمجھایا جس سے ہر شخص آسانی سے اجتہاد اور فقہ کی حقیقت سمجھ سکتا ہے۔

قارئین عظام!     اجتہاد اور فقہ کی حقیقت تین امور پر مشتمل ہے۔

۱۔       فقہ،اسلامی زندگی کے لئے بے حد ضروری ہے، اس کے بغیر اسلامی زندگی نامکمل اور مردہ ہے۔

۲۔      اجتہاد اور فقہ کسی شحص کی ذاتی خواہش کا نام نہیں، بلکہ قرآن و حدیث کے (اندر اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کے) ان مسائل کا نام ہے جن تک عوام کی رسائی ممکن نہیں۔

۳۔      اجتہاد اور فقہ جدید مسائل گھڑنے کا نام نہیں، بلکہ روزِ اول سے جو مسائل قرآن کریم کی آیات اور احادیث مبارکہ میں ہیں ان کے بیان کرنے کا نام ہے۔

مثال اور ممثّل لہ میں مطابق

قارئین کرام!     لفظ استنباط سے مثال دے کر د"امرِ اولد" اس طرح سمجھادیا کہ انسانی زندگی کے لئے جتنا پانی ضروری ہے کہ اس بغیر نہ تو وضو ہوسکتا ہے نہ غسل، نہ کپڑے صاف ہوسکتے ہیں اور نہ کھانا پکایا جاسکتا ہے، اسی طرح اسلامی زندگی کے لئے فقہ ضروری ہے، عبادات ہو یا معاملات، اقتصادیات ہوں یا سیاسیات، حدود ہوں یا تعزیرات، غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں فقہ کی رہنمائی ضروری نہ ہو۔

د"امرِ ثانید" اس طرح سمجھادیا کہ جس طرح زمین کی تہہ میں جو پانی ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کا پیدا کیا ہوا ہے نہ کہ اس انسان کا جس نے کنواں کھود کر اس کو نکال لیاہے، جب بھی کوئی آدمی کسی کنویں کا پانی پتا ہے تو اس عقیدے سے پیتا ہے کہ اس پانی کا ایک ایک قطرہ اللہ تعالیٰ ہی کا پیدا کیا ہوا ہے نہ کہ مستری اور کھودنے والے کا، مستری نے اپنی محنت اور اوزاروں کی مدد سے صرف اس کو ظاہر کردیا تاکہ خلقِ خدا مستفید ہوں، اسی طرح فقہ اور اجتہاد و استنباط کسی شخص کی ذاتی خواہش کا نام نہیں بلکہ مجتہد کا دین کے باریک مسائل کو اصولِ فقہ کی مدد سے عوام کے سامنے ظاہر کرنے کا نام ہے، تاکہ قرآن و حدیث کی ان مسائل پر عوام کے لئے عمل کرنا آسان ہو، یہی وجہ ہے کہ اصول فقہ میں ہر مجتہد کا ایک ہی اعلان ہوتا ہے:د"القیاس مظھر لا مثبت۔ کہ ہم قیاس کی مدد سے کتاب و سنت کی تہہ میں میں پوشیدہ مسائل کو صرف ظاہر کرتے ہیںد"، حاشا و کلّا ہم ہرگز کوئی مسئلہ اپنی ذات سے گھڑ کر کتاب و سنت کے ذمہ نہیں لگاتے۔

د"امرِ ثالثد" اس طرح سمجھادیا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے جب زمین پیدا فرمائی اس دن سے یہ پانی اس کی تہہ میں پیدا فرمادیا، البتہ اس کا نکالنا ضرورت کے مطابق ہوتا رہا، کسی علاقہ میں کنویں چار ہزار سال پہلے بن گئے، کسی ملک میں چار ہزار سال بعد، لیکن جہاں بھی پانی نکالا گیا وہ اللہ تعالیٰ ہی کا پیدا کردہ تھا، کوئی عقلمند یہ نہیں کہہ سکتا ہے جن علاقوں میں پہلے پانی نکلا وہ تو اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ تھا اور جن علاقوں میں بعد میں کنویں بنائے گئے وہ بعد میں کسی انسان کا پیدا کردہ پانی تھا، اسی طرح پہلی صدی میں حضرات فقہائے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے جو اجتہادات فرمائے انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ اور حضرت رسول اکرمﷺ کے ہی مسائل بیان فرمائے اور دوسری صدی میں ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ نے جو اجتہادات فرمائے وہ بھی کتاب و سنت کے مسائل کا بیان اور تفصیل تھی، فرق صرف اس قدر رہا کہ صحابہ کرامؓ کی مبارک زندگیوں کا اکثر حصہ جہاد میں گذرا، اس لئے ان نفوسِ قدسیہ کو اس کی مکمل تدوین کا موقع نہیں، ملا، یہ سعادت حضرات ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی قسمت میں تھا کہ کتاب و سنت کے ظاہر و پوشیدہ مسائل کو پوری تشریح اور تفصیل کے ساتھ نہایت آسان اور عام فہم ترتیب سے مدوّن فرمایا تاکہ قیامت تک مسلمانوں کو کتاب و سنت پر عمل کرنا آسان ہوجائے۔

قارئین کرام!

حضرات ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے ناموں سے مشہور فقہی مسائل کو ان کی ذاتی خواہش اور نوزائدہ کہہ کر رد کرنا اور ان مسائلِ فقہیہ پر عمل کرنے والوں کو مشرک کہنا ایسی احمقانہ بات ہے جیسے کہ ایک شخص نے کنواں بنالیا، ہزاروں لوگ اس سے پانی پی رہے ہیں، وضو، غسل کرکے نماز پڑھ رہے ہیں، کھانا پکارہے ہیں، اب کوئی احمق شور مچادے کہ اس کنویں کا تعارفی نام د"چودھری نواب دیند" کا کنواں ہے، اس لئے جو اس میں پانی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ پانی چودھری نواب دین کا پیدا کیا ہوا ہے، چودھری نواب دین اللہ کا شریک بنا بیٹھا ہے، جو لوگ اس کنویں سے پانی پیتے ہیں وہ مشرک ہیں، نہ ان کا وضو صحیح ہے نہ غسل، نہ ان کی نماز صحیح ہے نہ روزہ، تو کیا کوئی عقلمند آدمی اس احمق کی ان خرافات پر کان دھرے گا؟

غیر مقلدین کا حضرات ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اور ان کے مقلدین کے ساتھ بعینہ وہی سلوک ہے جو سلوک اس احمق کا جناب چودھری نواب دین اور اس کے بنائے ہوئے کنویں سے پانی لینے والوں سے ہے، حضرت ائمہ اربعہ رحمہم اللہ نے کتاب و سنت کے مسائل کو ظاہر کردیا اور کنویں کی شکل دیدی، ان کے مقلدین ان مسائل کے مطابق نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ میں مصروف ہوگئے، ہمارے نام نہاد اہلحدیث دوست ان کے پیچھے پڑگئے، کبھی کہتے ہیں کہ یہ پانی اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا نہیں، ورنہ اس کے ہر ہر قطرے پر اللہ کا نام لکھا ہوا دکھاؤ، کبھی کہتے ہیں ساری عمر ایک ہی کنویں کے پانی سے وضو کرنا یہ تو تقلید شخصی ہے اور یہ شرک ہے، ہر نمازی کا فرض ہے کہ فجر کی نماز کا وضو اپنے گھر کے کنویں سے کرے، ظہر کا وضو دوسرے ضلع کے کنویں سے ، عصر کا وضو کسی اور صوبہ کے کنویں سے، مغرب کا کسی اور سے اور عشاء کا کسی اور علاقہ کے کنویں سے کرے، اگر سب نمازوں کے لئے وضو ایک ہی کنویں کے پانی سے کرے گا تو گویا اس نے تقلید کی اور یہ شرک ہے۔

اہل السنۃ والجماعۃ کہتے ہیں کہ جب ہم کنویں کے محتاج ہیں تو جس کنویں کا پانی آسانی سے دستیاب ہوجائے ساری عمر اسی ایک کنویں کا پانی پینا، وضو و غسل کرنا، کھانا پینا، پکانا بالکل درست ہے، اس کو شرک کہہ کر تمام مسلمانوں کو مشرک بنانا دین کی کوئی خدمت نہیں۔

مذکورہ آیۃ کریمہ امورِ جہادیہ کے ساتھ خاص ہے یا امورِ اجتہادیہ اور قیاس کو بھی شامل ہے؟

قارئین کرام!     آیتِ کریمہ کو امورِ جہادیہ کے ساتھ خاص سمجھنا غلط ہے، حضرات مفسرین رحمہم اللہ نے اسے عام رکھا ہے، مفسر عظیم علامہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

دلت ھذہ الایۃ علی ان القیاس حجۃ فی الشرع و ذلک لان قولہ (الذین یستنبطونہ منھم) صفۃ لاولی الامر و قد اوجب اللہ تعالیٰ علی الذین یجیئھم امر من الامن او الخوف ان یرجعوا فی معرفتہ الیھم ، و لایخلوا ما ان یرجعوا الیھم فی معرفتہ ھذا الوقائع مع حصول النص فیھا او لا مع حصول النص فیھا، و الاول باطل لان علی ھذا التقدیر لا یبقی الاستنباط لان من روی النص فی واقعۃ لا یقال :انہ استنبط الحکم فثبت ان اللہ امر المکلف برد الواقعۃ الی من یستنبط الحکم فیھا ولو لا ان الاستنباط حجۃ لما امر المکلف بذٰلک فثبتا ان الاستنباط حجۃ و القیاس امام استنباط او داخل فیہ فوجب ان یکون حجۃ اذا ثبت ھذا فنقول : الاٰیۃ دالۃ علی اموت احدھا ان فی احکام الحوادث ما لایعرف بالنص بل بالاستنباط و ثانیھا ان الاستنباط حجۃ و ثالثھا ان العامی یجب علیہ تقلید العلماء فی احکام الحوادث و رابعھا: ان النبی ﷺ کان مکلفا بالاستنباط الاحکام لانہ تعالیٰ امر بالرد الی الرسول و الی اولی الامر ۔

(تفسیر الکبیر:۴/۱۵۴)

ترجمہ:۔ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ قیاس شرعی حجتوں میں سے ایک حجتِ شرعیہ ہے، وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: الذین یستنبطونہ منھم د"اولی الامرد" کی صفت واقع ہے، تحقیق اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جن کے پاس کوئی امن کا معاملہ یا خوف کی کوئی بات پیش آئے تو اولی الامر کی طرف (اس معاملہ کی تحقیق کے بارے میں) رجوع کا حکم دیا اور اہل معرفت کی طرف رجوع خالی نہیں یا تو اس واقع میں نص موجود ہوگی یا نہیں، بصورت اول باطل (یعنی اس واقع کی معرفت میں رجوع جس میں نص موجود ہے) اس لئے کہ اس صورت میں استنباط باقی نہیں رہے گا، کیونکہ جس سے کسی واقع میں نص مروی ہو کو اس کی بابت یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے حکم مستنبط کیا، پس ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے مکلفین کو (تحقیقِ حال کے لئے) پیش آمدہ واقعہ کو اہل استنباط پر رد کرنے کا حکم کردیا، اگر استنباط حجت ہے اور قیاس یا تو (خود نفس) استنباط ہوگا یا استنباط کے تحت داخل ہوگا، (بہر صورت) اس کا حجت ہونا ثابت ہوگیا، جب یہ ثابت ہوگیا تو ہم کہتے ہیں کہ آیتِ مذکورہ درجِ ذیل امور پر دلالت کرتے ہیں:

۱۔بعض احکام وہ ہیں جو نص سے نہیں پہچانے جائیں گے بالکل استنباط سے ثابت کئے جائیں گے۔ ۲۔استنباط حجتِ شرعیہ ہے۔ ۳۔عام لوگوں پر احکامِ حوادث میں علماء کی تقلید واجب ہے۔ ۴۔ آپﷺ احکام کو استنباط سے ثابت کرنے کے مکلّف تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (پیش آمدہ واقعہ میں تحقیق کے لئے) رسول اکرمﷺ اور اہلِ اجتہاد کی طرف رجوع کا حکم دیا۔

سوال:

مندرجہ بالا آیت میں (فضل و رحمت) سے کیا مراد ہے؟

کیا کسی ایک مفسر نے یہ کہا ہو کہ اس سے مراد لوگوں کا امورِ اجتہادیہ میں حضرت رسول اکرم ﷺ اور حضرات مجتہدین رحمہم اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے؟ اگر ہے تو حوالہ پیش کریں؟

جواب:

جی ہاں! حضرت علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

والمراد من الفضل والرحمة شىء واحد أى لولا فضله سبحانه عليكم ورحمته بإرشادكم الى سبيل الرشاد هو الرد الى الرسول صلى الله عليه و سلم والى أولى الأمر۔

(روح المعانی:۳/۹۵)

ترجمہ:۔ فضل اور حمت سے ایک شئی مراد ہے، یعنی اگر تم پر اللہ کا فضل اور رحمت نہ ہوتی بایں طور کہ ہدایت کے راستہ کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کرتا، وہ ہدایت کا راستہ جس میں رسول ﷺ اور حضرات مجتہدین رحمہم اللہ کی طرف رد اور رجوع ہوتا ہے(یعنی امورِ اجتہادیہ میں)۔

مقامِ رسول ﷺ

رسول اللہ ﷺ دین میں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں گھڑتے، بلکہ وہ اللہ ہی کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچاتے ہیں اور صرف پہنچاتے ہی نہیں بلکہ سکھاتے بھی ہیں، ان کی حیثیت معلم کی بھی ہے، وہ اپنے قول و فعل اور تقریر سے اس پیغام کی تشریح کرتے ہیں، وہ صرف مبلغ و معلم ہی نہیں مبیّن بھی ہیں، اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں اس کی وحی کی تشریح کرتے ہیں، وہ قاضی اور حکم بھی ہیں کہ احکامِ الہٰیہ کو نافذ کرتے ہیں، ان کی پوری زندگی وحی کے مطابق ڈھلی ہوئی ہونے کی وجہ سے پوری کائنات کے لئے اسوۂ حسنہ ہے، وہ دین کے ہر فیصلہ میں معصوم ہیں، یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ بہت بڑا فضل اور مہربانی تھی کہ اپنی وحی کی تشریح اپنی نگرانی میں معصوم پیغمبر ﷺ سے کرادی تاکہ بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکام سمجھنے اور عمل کرنے میں کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو وہ حقوق بندگی پورے اطمینان کے ساتھ ادا کرسکیں، لیکن شیطان جو اولادِ آدم کو گمراہ کرنے کی قسم کھا آیا تھا اس نے کتنے ہی لوگوں کو اپنے پیچھے لگالیا کہ اللہ اور بدوں کے درمیان رسول کا واسطہ یقیناً ہے، لیکن اتنا جتنا کہ ڈاکیہ اور چٹّھی رساں کا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کے کلام کا پہچاننا اس کا کام ہے اور سمجھنا ہمارا اپنا کام ہے، وہ لوگ دین کے نام پر لوگوں کو بے دین کرنے لگے اور شیطان کے پیچھے لگ کر یوں کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ مخولق ہیں، اگر ان کے کلام کو بھی مان لیا تو گویا مخلوق کو اللہ کے برابر مان لیا اور یہ شرک ہے، چنانچہ پیغمبر پاکﷺ سے منہ موڑ کر اپنی ذہنی سطح کے موافق اور اپنی خواہشاتِ نفسانی کے موافق ایک نیا اسلام گھڑ لیا، اس نئے اسلام کو اللہ خالق کا اسلام اور اصلی اسلام کو رسولؐ کا گھڑا ہوا اسلام قرار دیا اور اپنا نام اہلِ قرآن رکھ لیا، وہ لوگ اپنی ہر خواہش کو قرآن کا نام دیتے ہیں، جن کا انگریز کے دور سے پہلے کوئی ترجمہ قرآن نہیں، وہ قرآن کے مالک بن بیٹھے اور پوری امت کو رسولؐ سمیت منکر قرآن قرار دیا، بھولے بھالے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، یہ غلط ہے کہ اہلِ قرآن نیا فرقہ ہے بلکہ جب سے قرآن ہے اسی وقت سے اہل قرآن ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ جب قرآن سچا تو اہلِ قرآن سچے، تم قرآن کو سچا مان کر اہل قرآن کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے، پہلے (معاذ اللہ) قرآن کو جھوٹا کہو پھر اہل قرآن کو جھوٹا کہہ لینا ، جب اہل قرآن کی خرافات جسے وہ قرآن کے نام سے پیش کرتے ہیں غلط ثابت کیا جاتا ہے تو فوراً یہ کہہ کر جان چھڑا جاتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں مانتے، ہم صرف قرآن کو مانتے ہیں اگر آج کے اہل قرآن کو مانا ضروری ہوتا تو رسول پاکﷺ کو ہی مان لیتے، ان کو کیوں چھوڑتے ،اس طرح دو شیطانی خرافات پھیلاتے بھی ہیں اور جان بھی بچاتے ہیں، قرآن پاک نے خود اس طرز کو اتباع شیطان قرار دیا ہے نہ کہ اتباعِ قرآن۔

مجتہد کا مقام

مجتہد شریعت دان اور ماہر شریعت ہوتا ہے اور اس مہارت کی وجہ سے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے دو گہرے اور مخفی مسائل جو ابتداء سے ان میں موجود ہیں اور ہر کس و ناکس کا ذہن وہاں تک نہیں پہنچتا کو ظاہر کرنے والا ہوتا ہے، شریعت ساز نہیں ہوتا، مجتہد اگرچہ معصول نہیں ہوتا، لیکن مطعون بھی نہیں ہوتا کہ اس کے اجتہاد پر کوئی طعن کرے، کیونکہ وہ اپنے ہر ہر اجتہاد میں ماجور ہوتا ہے، اگر وہ صواب کو پالے تو دو اجر کا مستحق ہے، ورنہ ایک اجر کا کما فی حدیث البخاری، یہ مقام امت میں مجتہد کے علاوہ کسی کو نصیب نہیں کہ اس کی خطاء پر اجر کا وعدہ ہو۔

الحاصل!

یہی دو ہستیاں (رسول اللہ ﷺ اور مجتہد) دین میں تحقیق، تشریح اور تفصیل کی حقدار ہیں اور دین کے پہریدار ہیں، یہ بھی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور مہربانی ہے کہ تحقیق اور اجتہاد کا بوجھ ہم جیسے ضعیفوں کے کندھوں پر نہیں ڈالا بلکہ مجتہدین کی تحقیقی پر عمل کرنے کا حکم دے کر ایک طرف دین کو نااہلوں کی تحریف سے بچالیا، دوسری طرف ہمیں اطمینان ہے کہ مجتہد کی رہنمائی میں کیا ہوا عمل یقیناً اللہ تعالیٰ کے دربار میں مقبول ہے اور ایک اجر کا بھی پکا یقین ہے اور دوسرے اجر کی اس کی رحمت واقعہ سے امید ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل اور مہربانی کی بعض لوگوں نے قدر نہ کی اور مجتہدین سے بغاوت کرکے اپنی کم فہمی سے دین کی نئی نئی تشریحات شروع کردیں، مجتہد کے بارے میں اللہ اور رسول ﷺ نے یہی بتایا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کا مسئلہ ہی بتاتا ہے، لیکن ان لوگوں نے اس کے خلاف یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ مجتہد اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کے خلاف مسئلے بتاتے ہیں، مجتہد کی تقلید شرک فی الرسالہ ہے، تمام حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی مشرک ہیں، ائمہ کرامؒ نے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے ہیں، ائمہ مجتہدین کو چھوڑ کر اپنی اپنی حدیث نفس کا اتباع شروع کردیا اور نام اہلحدیث رکھ دیا اور اپنے بھائیوں کی طرح کہنے لگے کہ اہل حدیث نیا فرقہ نہیں، جب سے حدیث ہے اس وقت سے اہل حدیث ہے۔

نا اہل کا مقام

نااہل چونکہ کتاب و سنت کی تحقیق کا اہل نہیں ہوتا اس لئے اس کا مقام اہل کی تقلید کرنا ہے نہ کہ دین کی غلط تشریح کرنا۔

رسول اللہ ﷺ سے کسی سائل نے قیامت کے بارے میں سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا: جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کر، سائل نے عرض کیا: حضرتؐ! امانت کس طرح ضائع ہوتی ہے؟ فرمایا: جب کوئی امر نااہلوں کے سپرد کردیا جائے تو قیامت کا انتظار کر۔

(بخاری:۱/۱۴)

آپ ﷺ نے کسی عالمگیر حقیقیت کا انکشاف فرمایا ہے! بتائیے...! کیا جب ڈاکٹری نسخے وکیل لکھنا شروع کردیں تو ڈاکٹری پر قیامت نہ آئے گی؟ جب سونے کی جانچ سناروں کے بجائے کمہار کرنے لگیں تو قیامت نہیں آجائے گی؟ اسی طرح جب دین کی تشریحات ناہل کریں گے تو کیا دین پر قیامت نہ آئے گی؟

أپﷺ نے فرمایا کہ: دین کا علم(کتاب و سنت کے الفاظ)نہیں اٹھایا جائے گا (بلکہ الفاظِ کتاب و سنت یہی رہیں گے) مگر اس کے علماء اٹھا لئے جائیں گے، یہاں تک کہ کوئی باقی نہ رہے گا تو لوگ ناواقفوں کو اپنی پیشوا بنالیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔

(صحیح بخاری)

دین کے اصل علماء تو مجتہدین ہی ہوتے ہیں، بعد کے علماء ناقل ہیں، جو نااہل ہوکر خود اجتہادی پر اتر آتے ہیں، وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کردیتے ہیں، اگرچہ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے اس گمراہی کا ام خوبصورت سا رکھ لیا جائے، جیسے انکارِ حدیث کی گمراہی کا نام د"اہلِ قرآند" رکھنے سے حقیقت بدل گئی؟ تبرأ بازی کا نام د"تنقیدِ صالحد" رکھنے سے حقیقت بد گئی؟ نہیں! ہرگز نہیں!! جس طرح اہل قرآن پر فاسق و فاجر کو قرآن کے سمجھنے سمجھانے کا حق دیتے ہیں، مگر نبی معصوم ﷺ سے یہ حق چھیننا چاہتے ہیں، اسی طرح اہلِ حدیث ہر فاسق و فاجر ، ہر جاہل، کندۂ ناتراش کو اجتہاد کا حق دیتے ہیں، مگر ائمہ مجتہدین جن کا مجتہد ہونا صلیل شرعی یعنی اجماع امت سے ثابت ہے اور وہ یقیناً اپنے ہر فیصلہ میں ماجور ہیں، ان سے یہ حق چھیننا چاہتے ہیں، اہل قرآن و اہل حدیث کا ایک ہی مشن ہے کہ لوگ نبی معصوم ﷺ اور مجتہد ماجور کو چھوڑ کر جاہلوں کو اپنا دینی پیشوا بنالیں، جو خود بھی گمراہ ہوں اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں۔

غلطی نمبر:۲ کا بطلان

قارئین کرام!     ہر قسم کے اختلاف کو ضلالت و گمراہی اور حق و باطل کا اختلاف کہنا بذات خود بہت بڑی گمراہی ہے اور متعدد باطل نظریات کا پیش خیمہ ہے، ذیل میں اس کی تفصیل ملاحظہ ہو:

اقسامِ اختلاف

اختلاف کی تین قسمیں ہیں: ۱۔دین میں اختلاف ، اس کو اسلام اور کفر کا اختلاف بھی کہتے ہیں۔ ۲۔سنت اور بدعت کا اختلاف، یعنی ایک جانب اہل سنت و الجماعت ہوتے ہیں اور دوسری جانب اہل بدعت وھواء ہوتے ہیں۔ ۳۔ اجتہادی اختلاف، یعنی ایک مجتہد فروعی مسائل میں سے ایک مسئلہ کا جو حکم بتاتا ہے دوسرا مجتہد اس کے خلاف بتاتا ہے۔

اختلاف کی پہلی قسم

دین میں اختلاف یہ اسلام اور کفر کا اختلاف ہے، تمام ضروریاتِ دین کو ماننا ایمان اور اسلام ہے اور کسی ایک امرِ ضروری کا انکار یا تاویلِ باطل کرنا کفر ہے۔

مثال:   عقیدۂ ختم نبوت ضروریاتِ دین میں سے ہے، اب اگر کوئی یہ کہے کہ میں آپﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتا، تو وہ انکار کی وجہ سے کافر ہے اور اگر کوئی کہے کہ میں خاتم النبیین تو مانتا ہوں لیکن خاتم النبیین کے معنیٰ آخری نبی نہیں بلکہ ا س کے معنیٰ د"نبی گرد" یعنی آپﷺ مہریں لگا لگا کر نئے نبی بنایا کرتے تھے، تو یہ بھی کافر ہے تاویلِ باطل کی وجہ سے۔

ضروریاتِ دین کا مطلب

ضروریاتِ دین وہ امورِ دینیہ ہیں جو ایسی نص اور دلیل سے ثابت ہو جس کا ثبوت اور معنی پر دلالت دونوں قطعی اور یقینی ہوں اور امور کا دین میں ہونا ہر اس شخص کو معلوم ہو جس کا تھوڑا بہت دین سے تعلق ہو۔

تنبیہ:

ضروریاتِ دین میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے، ان میں اختلاف صرف ضدی، معاند اور ہٹ دھرم ہی کرسکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: و ھدیناہ النجدین o (البلد) د"اور ہم نے انسان کو دونوں راستے بتلادئے ہیںد"، یعنی جنت کا راستہ جس کو دین اسلام کہا جاتا اور جہنم کا راستہ جس کو کفر کہا جاتا ہے، دونوں اللہ تعالیٰ نے بتادئے ہیں۔

قارئینِ کرام!     غور کرکے فیصلہ کیجئے، جب بتانے والے اللہ تعالیٰ ہیں تو پھر کس منہ سے ہم کہیں گے کہ ہیں جنت و جہنم کے راستہ کا پتہ نہیں چلتا، کیا اللہ تعالیٰ سے بہتر وضاحت اور کھول کر بیان کرنے والی کوئی اور ہوسکتا ہے؟

برادرانِ محترم!    ہمارا امتحان اس میں نہیں لیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت و جہنم کے راستوں کو مخفی اور گول مول بیان کرکے ہمیں چکر میں ڈال دیا ہو کہ کوشش اور ریاضت سے معلوم کرتے رہو، جس کو معلوم ہوجائے وہ کامیاب ورنہ نا کام، بلکہ ہمارا امتحان اس میں لیا جارہا ہے کہ ہم نے صاف صاف کھول کر جنت کا راستہ بھی بتایا ہے اور جہنم کا بھی، اب تیرا امتحان ہے کہ تو کس راستہ پر چلتا ہے؟ جو جنت کے راستے یعنی دینِ اسلام پر چلے گا کامیاب ہوگا اور جو شیطان اور نفس کے بہکانے سے جہنم کے راستہ یعنی کفر کو اختیار کرے گا اور ناکام ہوگا، ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں راستوں کا بیان یوں فرمایا: فالھمھا فجورھا و تقویٰھا۔ (الشمس) د"پھر اللہ تعالیٰ نے ہر نفس کو فجور یعنی جہنم کا راستہ اور تقویٰ یعنی جنت کے راستہ کا الہام کیاد"، یعنی بتادیا کہ یہ جنت کا راستہ ہے اور جہنم کا راستہ۔

اختلاف کی دوسری قسم

یعنی سنت اور بدعت کا اختلاف، اس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ اسلام میں داخل ہونے والوں کے بارے میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ: میری امت میں تہتر (۷۳) فرقے ہوں گے، بہتر (۷۲) ان میں سے دوزخی ہوں گے اور ایک جنتی، حضرات صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یارسول اللہﷺ! وہ جنتی فرقہ کونسا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: د"ما انا علیہ و اصحابی ۔ یعنی وہ فرقہ جس کا طریقہ میری سنت کے موافق اور میرے صحابہؓ کی چال چالن کے مطابق ہود"۔

(مشکوٰۃ:۳۰)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ ۷۳ فرقے سب کے سب دین محمدی میں داخل ہونے کی وجہ سے محمدی ہیں، مگر نجات پانے والے صرف سنی محمدی ہیں۔

اہل بدعت اور اہل سنت کی پہچان!

اہل سنت وہ لوگ ہیں جو تمام ضروریات اہل سنت کو مانتے ہیں، ان میں سے ایک کا انکار کرنے والا بھی اہل سنت سے خارج ہوتا ہے اور اہلِ بدعت فرقوں میں شامل ہوجاتا ہے، جس نے تقدیر میں اہلِ سنت کے عقیدہ کی غلط تاویل کی تو وہ اہلِ سنت نہ رہا بلکہ اہلِ بدعت اور قدریہ فرقہ میں شامل ہوگیا اور جس نے عقیدۂ عذابِ قبر میں غلط تاویل کردی وہ اہلِ بدعت اور معتزلہ فرقہ میں شامل ہوگیا۔

اختلاف کی تیسری قسم

یعنی اجتہادی اختلاف، یہ اختلاف اہلِ سنت میں دائر ہے، اس اختلاف کی وجہ سے نہ فرقے بنتے ہیں اور نہ ہی یہ حق و باطل اور جنت و جہنم کا اختلاف ہے، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ، تابعینِ عظامؒ اور تبع تابعینؒ میں باوجود اتفاقِ عقائد کے فروع میں اختلاف ہوتا تھا، کیا اس فروعی اختلاف کی وجہ سے ان کو اہلِ حق سے نکال کر دوزخی فرقوں میں کوئی (بدنصیب) داخل کرسکتا ہے؟

سوال:

مجتہدین ماجور ہوتے ہیں یا مطعون کہ ان کو برا بھلا کہا جائے؟

جواب:

مجتہدین حضرات رحمہم اللہ حدیثِ رسول ﷺ کےمطابق ہر صورت میں ماجور ہیں۔

عن عمرو بن العاص ؓ انہ سمع رسول اللہ ﷺ یقول: اذا حکم الحاکم فاجتھد فاصاب فلہ اجران و اذا حکم فاجتھد ثم اخطا فلہ اجر۔

(بخاری:۲/۱۰۹۲۔ مسلم:۲/۷۶)

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: د"جب حاکم اجتہاد سے فیصلہ کرے اور صحیح فیصلہ پر پہنچ جائے تو اس کو دو اجر ملتے ہیں اور اگر حاکم اجتہاد سے فیصلہ کرے اور اس سے خطا ہوجائے تو ایک اجر کا مستحق ہےد"۔

اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ مجتہد معصوم نہیں ہوتا کیونکہ اجتہاد میں خطا کا احتمال بھی ہے، مگر وہ مطعون بھی نہیں ہوتا کہ اس پر زبانِ طعن دراز کی جائے، بلکہ مجتہد کے لئے ہر حال میں اجر و ثواب موجود ہے، خواہ دو اجر کا مستحق ہو یا ایک اجر کا۔

قارئین کرام!     جس کو اللہ تعالیٰ اجر دے رہا ہے ان پر اعتراض کرنے والا اپنی ہی نقصان کرتا ہے، مجتہد کا ذرہ برابر بھی نقصان نہیں۔

جنت کے قافلے

الحاصل ہر مجتہد جنت کے قافلے کا سردار اور اس کا امیر ہے، مسلمانانِ عالم ان کی رہنمائی میں جنت کی طرف رواں دواں ہیں۔

برادرانِ محترم!    اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مجتہدین کا اختلاف جنت دوخ اور ایمان و کفر اور حق و باطل کا اختلاف نہیں کہ ایک مجتہد کے قافلے کو جنت اور حق کا قافلہ کہا جائے اور دوسرے مجتہد کو دوزخ اور باطل کا قافلہ کہا جائے، کیونکہ دوزخ اور باطل کی طرف رہنمائی کرنے والے کو ہرگز اجر نہیں ملتا، جبکہ یہاں حدیث مبارک میں ہر صورت میں اجر کا وعدہ ہے۔

سوال:

حدیث میں حاکم کا ذکر ہے، جس سے حکمران مراد ہیں، اگر کسی نے اس سے مجتہد مراد لیا ہو تو ثبوت پیش کیا جائے؟

جواب:

حدیث میں حاکم سے مجتہد اور ایسا عالم جو حکم اور استنباط کی اہلیت رکھتا ہو کو مراد لینے کا پوری امتِ مسلمہ کا اجماع ہے اور خود غیر مقلدین نے بھی اس حدیث کو دیکھ کر بادل ناخواستہ اجتہادی مسائل کا اقرار کیا ہے۔

۱۔ اجماعِ مسلمین

قال الامام النووی رحمۃ اللہ علیہ قال العلماء: اجمع المسلمون ان ھذا الحدیث فی حاکم عالم اھل للحکم فان اصاب فلہ اجران ، اجر باجتھادہ و اجر باصابتہ و ان اخطا فلہ اجر باجتھادہ ، قالوا: فاما من لیس باھل للحکم فلا یحل لہ فان حکم فلا اجر لہ بل ھو آثم لا ینفذ حکمہ سواء وافق الحق ام لا، لان اصابتہ اتفاقیۃ لیست صادرۃ عن اصل شرعی، فھو عاص فی جمیع احکامہ سواء وافق الصواب ام لا ، وھی مردودۃ کلھا لا یعذر فی شئ من ذلک ۔

(النووی شرح مسلم:۲/۷۶، قدیمی کتب خانہ)

یعنی حضرات علماءکرام رحمہم اللہ نے فرمایا کہ سب مسلمانوں کا اس بات پر اجماع اور اتفاق ہے کہ اس حدیث میں حاکم سے مراد ایسا عالم ہے جس میں حکم، فیصلہ اور استنباط کی اہلیت و صلاحیت ہو، پس اگر یہ صحیح فیصلہ تک پہنچ جائے تو اس کے لئے دو اجر ہیں، ایک اجتہاد کی وجہ سے اور ایک صحیح تک پہنچنے کی وجہ سے، اور اگر اس سے خطا ہوجائے تو بھی اس کو اجتہاد کی وجہ سے ایک اجر ملتا، انہوں نے فرمایا کہ وہ شخص جس میں فیصلہ اور استنباط کی اہلیت نہیں اس کے لئے اجتہاد و استنباط جائز نہیں، اگر باوجود نااہل ہونے کے اس نے تاجہاد کرکے کوئی فیصلہ کیا اور مسئلہ بتایا تو اس کو اجر نہیں ملے گا بلکہ اس کی وجہ سے گنہگار ہوگا اور اس کا یہ فیصلہ نافذ نہ ہوگا، خواہ موافق ہو یا مخالف، اس لئے کہ اس کا صحیح بات کہنا ایک اتفاقی امر ہے، کسی شرعی اصول پر مبنی نہیں، لہٰذا یہ نا اہل تمام فیصلوں اور مسئلوں کے بتانے سے گنہگار ہوگا، خواہ وہ حق کے موافق ہو یا نہ ہو اس کے یہ تمام فصیلہ مردود ہوں گے اور اس کو کسی بھی بات میں معذور نہیں سمجھا جائے گا۔

د"اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس نے اگر ایک مسئلہ صحیح بتادیا ہے تو ۱۰۰/مسئلہ غلط بتائے گا، کیونکہ ہے تو یہ نااہل، اور جس طرح نااہل ڈاکٹر علاج کرنے سے گنہگار ہوتا ہے اگرچہ اس کے علاج کسی کو شفاء بھی ہوجائے، اسی طرح غیر مجتہد اور نا اہل قرآن و حدیث سے مسائل نکالنے پر پابندی ہے، لہٰذا خلاف ورزی کرے گا تو گناہگار ہوگا اور اس کا کوئی عذر نہ سنا جائے گاد"۔

(حضرت مولانا مفتی احمد)

۲۔ غیر مقلد مولانا عبد العزیز نورستانی کا فیصلہ

مولانا نورستانی صاحب نے بندہ کے ایک خط کے جواب میں صاف اقرار کیا ہے کہ یہ حدیث اجتہادی مسائل سے متعلق ہے، اجتہادی مسائل کا انکار اس حدیث کا انکار ہے، جناب نورستانی صاحب کے اپنے الفاظ یہ ہیں:

د"حاشا و کلا اہلحدیثوں نے کبھی اجتہادی مسائل سے انکار نہیں کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اذا حکم الحاکم فاجتھد فاصاب فلہ اجرانِ و اذا حکم فاجتھد و اذٓ حکم اخطا فلہ اجرد"۔

د"اہلِ حدیث اس حدیث کے ہوتے ہوئے اجتہادی مسائل سے کب انکار کرسکتے ہیں جبکہ ان کا دعویٰ ہی عمل بالحدیث ہےد"۔

تنبیہ

جناب نورستانی صاحب کا یہ ملفوظ اس کے اپنے لیٹر پیڈ پر لکھا ہوا بندہ کے پاس محفوظ ہے، یہ خط برادرم قمر الدین (پشاور والے) کے واسطہ سے بندہ کو وصول ہوا ہے جو صاحب تصدیق کرنا چاہیں وہ خود بندہ سے مل کر اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

علامہ وحید الزماں غیر مقلد فرماتے ہیں: د"اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام میں جتنے علماء مجتہدین گذرے ہیں جیسے امام شافعی، امام مالک، امام ابو حنیفہ کوفی، امام اجل احمد بن حنبل، امام داؤد ظاہری، امام سفیان ثوری، امام اوزاعی، امام اسحاق بن راہویہ، امام بخاری، امام اشہب، امام سہنون، امام ابن مبارک، امام ابن شبرمہ، امام ابن ابی لیلیٰ، امام وکیع، امام ابو یوسف، امام محمد، امام زُفر، امام مزنی، امام طحاوی، امام ابوثور، امام ابن منذر، امام لیث بن سعد، امام ابن تیمیہ، امام ابن جریر طبری، امام شوکانی، ان سب لوگوں کے لئے ہر ایک مسئلہ اختلافی میں اجر اور ثواب ہوا ہے، گو ان سے خطا اور غلطی ہوئی ہو اور اس وجہ سے ہر ایک مجتہد اور امام کا احسان ماننا چاہئے کہ انہوں نے خدا کے واسطے دین میں کوشش کی اور ان کی برائی اور بدگوئی سے باز رہنا چاہئے، راضی ہو اللہ ان سب بزرگوں سے۔ آمین یا رب العالمیند"

(اردو ترجمہ صحیح مسلم:۴/۳۴۷)

الحاصل: اس حدیث میں آپ ﷺ نے ہر مجتہد کو ماجور فرمایا ہے اور اس پر سب کا تقریباً اتفاق ہے کہ اس حدیث میں حاکم سے جاہل اور اَن پڑھ حاکم مراد نہیں ، جیسے فی زماننا حکمران ہیں، بلکہ حاکم سے مراد وہ شخص ہے جو عالم ہو اور عام بھی نہیں بلکہ اس میں حکم اور فیصلہ کی اہلیت ہو، یعنی قرآن و احادیثِ مبارکہ میں غور و فکر کرکے مسائل نکال سکتا ہو۔

اجتہادی و فروعی اختلاف کو گمراہی کہنا بھی گمراہی ہے!

اجتہادی اور فروعی مسائل میں اختلاف احادیثِ مبارکہ، آثارِ صحابہؓ و تابعینؒ سے ثابت ہے، لہٰذا اس اختلاف کو گمراہی کہنا احادیث و آثار کا انکار اور گمراہی ہے۔


Home » باطل فرقوں کے عقائد ونظریات اوران کی تفصیلات اور کچه جوابات » Masail مسائل »a دین پر عمل کرنے کے لئے کیا کسی امام کی پیروی کرناضروری ہے؟

    Choose :
  • OR
  • To comment
No comments:
Write comments

Old Copy Sites
http://www.raahehaq313.wordpress.com
http://raahehaq313.blog.com