کتاب، پردہ اور جدید ریسرچ، سے اقتباس

 


صفحہ نمبر۲۴:

اسلام نے نگاہ اور زنا کے فتنے سے بچنے کے لئے پردے کی پابندی لگائی ہے۔ عورت عفت و عصمت کی پیکر ہے۔ یہ حیا کی چادر ہے لیکن افسوس کہ آج کل ہماری ماں بہنوں میں پردہ اُٹھتا چلا جا رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ گویا بے پردگی کو کوئی گناہ تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں حالانکہ بے پردگی حرام ہے قرآن مجید میں پردے کی خاص تاکید کی گئی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔‘‘  (الاحزاب پ ۲۲

اسلام نے حجاب کی شکل میں عورتوں کو اپنا علیحدہ تشخص عطا کیا ٗ انہیں اپنے مستقل وجود کا احسا دِلایا ٗ مردوں کی ہوس کا اسیر ہونے سے بچایا ٗ بلکہ وہ ہتھیار عطا فرمایا کہ جوان کے تحفظ کا ضامن ہے۔

صفحہ نمبر۲۵:

پردہ مسلمان عورت کا فریضہ ہے۔ جب عورت پردہ نکلنی ہے اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کی توجہ عورت کے پردہ پر مذکورہ ہوتی ہے۔ پردہ عورت کے لئے دیوار ہے لوگ آگے عورت کے جسم کو نہیں دیکھ سکے۔

عورت عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی سر ڈھانپنا یا پردہ ہے ٗ جب عورت کا معنی ہی پردہ ہے تو پھر ہماری خواتین کو پردے سے آخر اتنی دُشمنی کیوں ہے؟ جو پردے کے نام سے کتراتی ہیں اور پردہ کرنا اپنی توہین سمجھنے لگی ہیں اور پھر بھی عورت کہلاتی ہیں جب کبھی عورت کی عظمت کی بات ہو تو حوالہ یہ دیا جاتا ہے کہ اسلام نے عورت کو بہت بلند مقام عطا کیا ہے ماں کے قدموں تلے جنت ہے غرض ہر کردار میں عورت کو عزت بخشی ہے لیکن اسلام نے یہ عزت و مرتبہ ان عورتوں کو بخشا ہے جو عورتیں پردے کے تقاضے بھی پوری کرتی ہیں۔

عورت جس کے سر پر دین فطرت نے غیرت و آبروکا تاج رکھا تھا جس کے گلے میں عفت و عصمت کے ہار ڈالے تھے آج وہ تجارتی اداروں کے لئے ایک شوپیس اور مرد کی تھکن دُور کرنے کے لئے ایک تفریح کا سامان بن کر رہ گئی۔جب سے معاشرے میں بے پردگی کا رواج بڑھا ہے اسی وقت سے اغواء زنا اور دوسرے جرائم کی شرح کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے۔ ان لعنتوں کے سدباب کا اگر کوئی راستہ تو صرف یہ ہے کہ ہم پردے کے سلسلہ میں اپنا رویہ بدلیں۔

آج پوری دُنیا میں خصوصاً اسلامی ممالک میں بے پردگی اور عریانیت کا سیلاب برپا ہے اور بے پردگی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے عورت کو بے پردہ کرکے بطور ہتھیار استعمال کرنا یہود ونصاریٰ کا خاص مشن ہے ایک یہودی مصنف کہتا ہے کہ

معاشرے کے بے دین بنانے میں عورت زیادہ موثر کردار ادا کر سکتی  ھے

شیطانی نگاہوں سے بچنے کے لئے پردہ میں رہنا ضروری ہے اس سے نہ صرف انسان بری نگاہوں سے بچ سکتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل ہوتی ہے۔

صفحہ نمبر۲۶:

اب بھی اگر ہماری مائیں بہنیں پردہ کرنے کا تہیہ کر لیں تو کبھی بھی عصمت دری کی نوبت نہ آئے ہمارے رسائل ٗ جرائد پر بے پردہ خواتین کی تصاویر بڑے اسٹائلش انداز میں پیش کرکے عورت کے دل سے پردے کی اہمیت کو بالکل ختم کِیا جاتا ہے۔ہماری خواتین اگر ماں ٗ بیٹی ٗ بہن اور بہو غرض کسی بھی رُوپ میں معاشرے میں مقام و عزت حاصل کرنا چاہتی ہیں تو یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ پردے کو کسی حالت میں نہ چھوڑیں اس کے برعکس اگر خواتین پردے کو اپنی توہین سمجھتی رہیں تو پھر اسی طرح ذلیل و رسواہوتی رہیں گی جس طرح آج ہو رہی ہیں۔مُسلمان عورت پردہ میں رہ کر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کرتعلیم و تربیت اور تبلیغ کا فریضہ انجام دے کر آزادی نسواں کا نعرہ لگانے اور مغربی تہذیب کو گلے لگانے والی خواتین کو شکست فاش دے سکتی ہیں اور اسلام کی فتح مبین اور اس کی سربلندی کا باعث بن سکتی ہیں۔ (انشاء اللہ تعالیٰ) دُعاہے اللہ تعالیٰ ہماری عورتوں کو باپردہ رہ کر یہودو نصاریٰ کے عزائم کو خاک میں ملانے کی توفیق دے۔

صفحہ نمبر۳۰:

عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم:

عورتوں کی عصمت و عفت کی حفاظت اور معاشرے کی اخلاقی پاکیزگی کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ عورتوں کا مردوں سے کم سے کم اختلاط ہو جس کی سب سے اچھی صورت یہ ہے کہ خود عورتیں بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں کہ ان کا بکثرت گھروں سے نکلنا نامحرموں سے ٹکرائو اور شدید فتنے کا سبب بنتا ہے جیسا کہ اسلام سے پہلے کی جاہلیت قدیمہ اور موجودہ جاہلیت جدیدہ سے یہ بات نمایاں طور پر واضح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے مسلمان عورتوں کو اپنے گھروں میں ٹکے رہنے کا خاص طور سے حکم دِیا ہے۔

صفحہ نمبر۳۶:

صرف یہی نہیں کہ مفسرین عظام نے امت کو یہ بتا دیا ہو کہ اس آیت کے تحت مسلمان عورت پر پردہ کرنا لازم ہوتا ہے اور پردے میں چہرے کا پردہ بھی شامل ہے بلکہ ان بزرگوں ہستیوں نے (اللہ ان کی قبریں نور سے بھرے) باقاعدہ چادر اوڑھنے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ قاضی شوکانی  لکھتے ہیں :

علامہ ابن جریر ٗ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے تحت گھر سے نکلیں تو اپنی چادروں سے اپنے سروں کو ڈھانپتی ہوئی اپنے چہروں کو چھپا کر نکلیں اور وہ صرف ایک آنکھ کھلی رکھ سکتی ہیں(فتح القدیر۷؍ ۳۰۷

صفحہ نمبر۳۷:

حضرت محمد بن سیرین جو کہ مشہور تابعی ہیں چادر اوڑھنے کا یہ طریقہ نقل کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ

میں نے حضرت عبیدہ بن سفیان بن حارث حضرمی سے اس کا طریقہ پوچھا تو اُنہوں نے اپنی شال اُٹھائی اور اسے باقاعدہ اوڑھ کر سمجھایا پہلے اُنہوں نے اس سے اپنے سر اور پیشانی کو اس طرح ڈھانکا کہ بھنویں تک چھپ گئی پھر اسی چادر سے اپنے چہرے کے بقیہ حصے کو اس طرح چھپایا کہ صرف داہنی آنکھ کھلی رہ گئی۔  (روح المعانی بحوالہ مذکور احکام القرآن جصاص  ۔  ج ۵ ص ۲۴۴ ۔  تفسیر قرطبی ج ۱۴ ص ۲۴۳

صفحہ نمبر۳۸۔۳۹:

امام رازی لکھتے ہیں:

زمانہ جاہلیت میں اشراف کی عورتیں اور لونڈیاں سب کھلی پھرتی تھیں اور بدکار لوگ ان کے تعاقب میں رہا کرتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شریف عورتوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے اُوپر چادر ڈال لیا کریں تاکہ اس طرح وہ صاف پہچان لی جائیں۔ پہچانے جانے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ لباس سے پہچان لیا جائے گا کہ وہ شریف عورتیں ہیں اور ان کا پیچھا نہ کِیا جائے گا دوسرے یہ کہ اس سے معلوم ہو جائے گا کہ وہ بد کار نہیں ہیں کیونکہ جو عورت چہرہ چھپائے گی تو کوئی شخص اس سے یہ توقع نہیں کرے گا کہ ایسی شریف عورت کشف ستر پر آمادہ ہو جائے گی۔ چنانچہ اس لباس سے یہ ظاہر ہو جائے گا کہ وہ ایک پردہ دار عورت ہے اور اس سے بدکاری کی توقع نہیں کی جا سکے گی۔    (تفسیر ابن کثیر  ۔  ج ۲۵ ص ۲۳۰

علامہ قرطبی لکھتے ہیں:

چونکہ زمانہ جاہلیت میں عورتیں گھٹیا اطوار کی عادی تھیں اور باندیوں کی طرح کھلے چہرے پھرا کرتی تھیں اور یہ چیز مردوں کی نظروں کو اپنی طرف کھینچتی اور ان کی ذہنی آوارگی کا سبب بنا کرتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس آیت میں حکم فرمایا کہ وہ مسلمان عورتوں سے کہہ دین کہ جب وہ اپنی ضروریات کے لئے گھروں سے باہر نکلا کریں تو چہروں پر گھونگٹ ڈال لیا کریں۔   (تفسیر قرطبی۔  ج ۱۴ ص ۲۴۳

علامہ ابن جوزی ؒ لکھتے ہیں:

امام ابن تیمیہ ؒ کے بقول اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان عورتیں بڑی بڑی چادریں اوڑھا کریں۔ دوسرے علماء کا یہ کہنا ہے کہ عورتیں چادریں اس طرح اوڑھیں کہ ان کے سر اور چہرے چھپ جائیں تاکہ دیکھنے والے کو معلوم ہو جائے کہ وہ آزاد اور شریف عورتیں ہیں۔(زادالمسیر ج ۶ صفحہ ۴۲۲۔  بحوالہ: حجاب پردہ کے شرعی احکام)

حضرت ابن عباس ؓ کے قول میں مذکور ایک آنکھ کھلی رہنے کی رخصت بھی راستہ دیکھنے کی ضرورت کے پیش نظر دی گئی ہے لہٰذا جہاں راستہ دیکھنے کی ضرورت نہ ہوگی وہاں ایک آنکھ سے بھی پردہ ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں۔

صفحہ نمبر۴۰ تا ۴۴:

بوڑھی کے لئے بھی پردہ کا حکم:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

والقواعد من النساء التی لا یر جون نکاحا فلیس علیھن جناح ان یضعن         ثیابھن غیر متبر جت بزینۃ و ان یستعففن خیر لھن واللّٰہ سمیع علیم (النور۲۴/۶۰)

اور بڑی عمر کی عورتیں جن کو نکاح کی توقع نہیں رہی وہ اگر چادر اُتار دیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ اپنی زینت کا مظاہرہ نہ کرتی پھریں اور اگر اس سے بھی بچیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے۔

اس آیت کریمہ سے پردہ کے واجب ہونے پر وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان بوڑھی عورتوں سے گناہ کی نفی کی ہے جو سن رسیدہ ہونے کے سبب نکاح کی اُمید نہیں رکھتیں اس لئے کہ بوڑھی ہونے کی وجہ سے مردوں کو ان کے ساتھ نکاح میں کوئی رغبت نہیں ہوتی لیکن اس عمر میں بھی چادر اُتار رکھنے پر گناہ نہ ہونا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اس سے ان کا مقصد زیب و زینت کی نمائش نہ ہو چادر اُتار دینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ کپڑے اُتار کر بالکل برہنہ ہو جائیں بلکہ اس سے صرف وہ کپڑے مراد ہیں عام لباس کے اُوپر سے اس لئے اوڑھے جاتے ہیں کہ جسم کے وہ حصے جو عام لباس سے عموماً باہر رہتے ہیں جیسے چہرہ اور ہاتھ چھپ جائیں۔ لہٰذا ان بوڑھی عورتوں کو جنہیں کپڑے اُتارنے کی رخصت دی گئی ہے اس سے مراد مذکورہ اضافی کپڑے (یعنی چادریں برقعے وغیرہ) ہیں جو پورے جسم کو ڈھانپتے ہیں۔ اس حکم کی عمر رسیدہ خواتین کے ساتھ تخصیصی دلیل یہ ہے کہ جوان اور نکاح کی عمر والی عورتوں کا حکم ان سے مختلف ہے کیونکہ سب عورتوں کے لئے اضافی کپڑے اُتار دینے اور صرف عام لباس پہننے کی اجازت ہوتی تو سن رسیدہ ونکاح کی عمر سے گزری ہوئی عورتوں کو بالخصوص ذکر کرنے کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا۔

مذکورہ آیت کریمہ کے الفاظ  (غیر    متبر جت بزینۃ) ’’بشرطیکہ یہ بوڑھی عورتیں اپنی زینت کا مظاہرہ نہ کرتی پھریں۔‘‘ اس بات کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ نکاح کے قابل جوان عورتوں پر پردہ فرض ہے۔چونکہ عام طور پر جب وہ اپنا چہرہ کھلا رکھتی ہیں تو اس کا مقصد زینت کی نمائش اور حسن و جمال کا نمایاں مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ مردان کی طرف دیکھیں اور ان کے حسن و جمال کی مدح و توصیف کریں اس قماش کی عورتوں میں نیک نیت شاذونادر ہی ہوتی ہیں اور شاذو نادر صورتوں کو عام قوانین کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔

پردے کی آڑ سے گفتگو کرنی چاہئے:

سورۃ احزاب آیت نمبر ۵۳ میں حکم دیا گیا ہے کہ:

واذا      سالتموھن متاعاً فسئلوھن من وراء حجاب ذلکم اطھر  لقلوبکم و قلوبھن

اے مسلمانو) جب کبھی تم کوئی چیزان (ازواج مطہرات) سے مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو یہ تمہارے اور ان کے دِلوں کی طہارت کے لئے عمدہ طریقہ ہے

اللہ اللہ! ایک طرف تو مسلمانوں کی مائیں ازواج مطہرات ہیں کہ جن کی عفت و عصمت اور پاکدامنی اور تقویٰ کے سامنے سارے جہاں کی عورتوں کی عفت وعصمت ہیچ ہے اور دوسری جانب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں کہ جن کے مصفیٰ ومطہر قلوب ہونے کا کوئی ثانی ہی نہیں اور نتیجتاً جنتی ہونے کا ان کی زندگی ہی میں اللہ تعالیٰ نے قرآنی سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا تھا۔لیکن اس کے باوجود حکم دیا جا رہا ہے کہ جب بھی ان سے کوئی چیز مانگو تو پردے کی آڑ سے مانگو تا کہ دونوں جانب قلوب میں طہارت و پاکیزگی رہے خاکم بدہن نہ تو ازواج مطہرات کی نیتوں میں فتور تھا اور نہ ہی نعوذ بااللہ من ذالک صحابہ کرام ؓ کے قلوب میں کوئی کدورت تھی بلکہ یہ تو صرف امت کی عورتوں اور مردوں کو تعلیم دی جا رہی تھی کہ پردہ کیوں اور کس طرح کرنا چاہئے اور طہارت قلوب واذہان کے لئے کیا بندوبست ہونا چاہئے۔

اس آیت سے ان خواتین کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو دانستہ یا نادانستہ یہ کہتی ہیں کہ ہمارا دل صاف ہے اور ہماری نیت پاک ہے لہٰذا ہم کو برقعہ کی کیا ضرورت ہے۔ہماری بھی یہی تمنا ہے اور دُعا بھی کہ ہماری بہنیں متقی وپرہیزگار رہیں لیکن ان کا طرز فکر غلط ہے اور یہ محض ابلیسی وسوسہ ہے ان معصوم بہنوں کو قطعاً علم نہیں کہ جب وہ بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں تو کتنے نوجوانوں کے دلوں کو گرماتے ہوئے یا برماتے ہوئے گزر جاتی ہیں۔

اس کا مشاہدہ روزانہ بسوں میں سفر کرنے والے نوجوانوں کی گفتگو سے لگایا جا سکتا ہے اور اسی کی طرف قرآن نے بھی سورۃ احزاب میں اشارہ کیا ہے جبکہ سورۃ نور کی آیت نمبر ۳۱ میں یہ حکم دیا جا چکا ہے کہ مردوں کے سامنے بے پردہ نہ جائو ٗ نیز یہ کہ اپنی زینت و آرائش کو مردوں سے پوشیدہ رکھو تو پھر کسی کو یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ ہماری نیت پاک ہے کیا یہ خواتین ازواج مطہرات سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہیں؟

مندرجہ بالا آیت سے یہ مغالطہ ہو رہا تھا کہ ازواج مطہرات کے باپ ٗ بیٹوں اور دیگر رشتہ داروں اقرباء کو بھی پردے کی آڑ سے گفتگو کرنی چاہئے۔ صحابہ کرامؓ بھی اس سلسلے میں وضاحت کے منتظر تھے۔افلح بن ابی قعیس نے جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے کہا کہ تم مجھ سے پردہ نہیں کر سکتیں کیونکہ تم میرے بھائی کی بیٹی ہو تو عائشہ صدیقہ ؓ  نے نہ ماناحضور ﷺکے سامنے جب یہ معاملہ پیش ہوا تو آپ ؒ نے فرمایا وہ تمہارا (رضاعی) چچا ہے وہ یہاں آسکتا ہے چنانچہ اسی کی وضاحت کے لئے احزاب کی آیت نمبر ۵۵ نازل ہوئی جس نے مسئلہ حجاب کو صاف اور واضح کر دیا ارشاد ہوا:

لا       جناح علیھن … واتقین اللّٰہ

(پردہ نہ کرنے میں ) کوئی گناہ نہیں (پیغمبرکی بیبیوں کو) نہ اپنے باپوں اور نہ اپنے بیٹوں اور نہ بھائیوں اور نہ اپنے بھتیجوں اور نہ اپنے بھائیوں اور نہ اپنی عورتوں سے اور نہ اپنی لونڈیوں سے اور خدا سے ڈرتے رہو

قبل ازیں بھی واضح کر دیا گیا ہے اور دوبارہ عرض ہے کہ رسول اللہ  ﷺ  اور ازواج النبی  ﷺ کو جو حکم دیا جاتا ہے امت کے مردوں اور عورتوں کے لئے بھی وہی حکم واجب التعمیل ہوتا ہے جیسے نماز ٗ روزہ ٗ زکوٰۃ ٗ حج وغیرہ  (تفصیل کے لئے ملا خطہ ہو تفسیر ابن کثیر اور معارف القرآن وغیرہ

بلا اجازت گھروں میں جانا:

سورۃ نور کی آیت نمبر۲۷ میں ہدایت فرمائی:

یایھا الذین امنو لا تدخلو بیوتاً غیر بیوتکم حتّٰی تستانسوا۔

اے مسلمانو! اپنے گھروں کے سوا (دوسرے ) گھروں میں بغیر اجازت لئے داخل نہ ہو۔

اور مشکوٰۃ میں دو روایات ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے گھروں میں بھی داخلے سے پہلے اجازت لے لیا کرو مبادا ایسا نہ ہو کہ تمہاری ماں ( یا کوئی اور عورت) گھر میں مردنہ ہونے کی وجہ سے بے تکلف بیٹھی ہو اور تمہارے بلا اجازت داخلے سے اس کی بے حرمتی ہو جائے۔اس حدیث کے تحت ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ خود اپنے گھروں میں داخل ہوں تو داخلے سے پہلے آواز دے لیں یا ایسی حرکات کریں کہ جس سے گھر کی عورت کو سنبھل کر باوقار طور پر بیٹھنے کا موقعہ مل جائے۔

حضور  ﷺ نے مردوں کو حکم دیا کہ غیر محرم عورتوں کے پاس تنہائی میں نہ جایا کرو تو ایک انصاری صحابی   نے عرض کیا ٗ دیور اورجیٹھ کے بارے میں کیا حکم ہے (یعنی کہ وہ عام طور پر گھروں میں خلوت و جلوت ہر دو موقعوں پر گھر میں آتے جاتے ہیں؟) تو فرمایا کہ:’’یہ تو موت ہے (یعنی زیادہ خطر ناک ہے)۔‘‘  (مسلم )

مسلم اور اسی سورۃ کی آیت نمبر ۵۹ میں حکم دیا کہ:

’’جب بچے سن شعور کو پہنچ جائیں تو انہیں بھی مردوں کی طرح گھروں میں اجازت لے کر داخل ہونا چاہئے۔‘‘

صفحہ نمبر۴۶:

ام مکتوم ؓ نامی نابینا صابی ؓ سے پردہ:

یہ واقعہ نزول حجاب کے بعد کا ہے اس حدیث سے عورتوں کے متعلق  معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی کسی مرد کو نہ دیکھیں ’’یحفظن       فروجھن‘‘ کے متعلق سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ اس میں خواہش سے بچنے کا حکم ہے قتادہؒ اور سفیان ؒ کہتے ہیں ان تمام چیزوں سے عورتوں کی حفاظت کا حکم ہے جو ان کے لئے حلال نہیں ہیں۔  (ابن کثیر

دین و دنیا میں عورتوں کی عزت و محافظت کس چیز میں ہے؟

زید ابن طلحہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا:

’’ہر دین کی ایک خاص عادت و اخلاق ہوتے ہیں دین اسلام کی خاص عادت و اخلاق حیاء ہے۔‘‘  (بیہقی و تفسیر مظہری

صفحہ نمبر۴۷:

عورت جب بغیر پردہ کے باہر نکلتی ہے تو شیطانی عملہ حرکت میں آتا ہے:

ترمذی نے حضرت  عبداللہ بن مسعود ؓ نے آنحضرت  ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

المراۃ   عورۃ فاذا خرجت استشرفھا الشیطان    (مشکوۃ  ص ۲۶۹

عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے جب کوئی عورت (اپنے پردہ سے باہر ) نکلتی ہے تو شیطان اس کو مردوں کی نظروں  میں اچھا کرکے دکھاتا ہے۔

عورت ستر ہے اور ستر چھپانے والی چیز کو کہا جاتا ہے عورت جب تک چھپی ہوئی ہے تو عورت ہے۔ اس میں حیاء ہے ٗ پاکدامنی ہے اور اپنے مرد کے ساتھ وفاداری اور نباہ کا جذبہ ہے ٗ لیکن یہی عورت جب کالج یا دفتر کے ماحول میں قدم رکھتی ہے اور مختلف نظروں کا نشانہ بنتی ہے تو پھر اس کے اندر سے خاوند کی محبت اور وفاداری کا جذبہ نکل کر ہر مرد کے لئے پرکشش بننے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔

صفحہ نمبر۴۸:

مردوں کے حق میں بری اور عورتوں کے حق میں اچھی چند عادتیں:

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جو عادتیں مردوں کے حق میں بری سمجھی جاتی ہیں وہ عورتوں کے حق میں بہت اچھی ہیں مثلاً بخل ٗ تکبر اور بزدلی اس لئے کہ عورت بخیل ہوگی تو اپنے اور شوہر کے مال کی حفاظت کرے گی اور موقع بے موقع خرچ کرکے ضائع کرنے سے گریز کرے گی۔مغرور ہوگی تو دوسرے لوگوں کو اپنی نرم اور شیریں گفتاری سے متاثر نہ کر سکے گی۔ بزدل ہو گی تو شوہر کے خوف سے لرزاں رہے گی اور اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم نہ رکھے گی اور تہمت کی جگہوں سے بچنے کی کوشش کرے گی اور اجنبی مردوں سے بات کرنے میں ڈرے گی کہ کہیں میرے شوہر کو یہ پتہ نہ چل جائے۔ (بحوالہ احیاء العلوم جلد اول قسط ۱ صفحہ ۹۶ اور غنیہ الطالبین)

نوٹ)

بخل اور تکبر کا جو اصلی رُوپ ہے وہ ہر شکل میں منع ہے یہاں صرف مثال ہی کا مفہوم مراد ہے۔

صفحہ نمبر۵۱۔۵۲:

عورت کی فطرت میں دو چیزیں شامل ہیں:

حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ رسول  اللہ  ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ ہرعورت کی فطرت میں دو چیزیں ضرور شامل ہیں:

ضعف

(۲)

پوشیدہ  (یعنی پردہ)

تمہارے لئے ان کے ضعف کا علاج خاموشی ہے اور چھپانے کی تدبیر چارد دیواری ہے  (جہاں تک ہو سکے گھر کے اندر رکھو)۔   (الحدیث  ترمذی شریف    جلد نمبر۲

اور حقیقت یہی ہے کہ جو چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے اس کو اسی قدر زیادہ چھپایا جاتا ہے اگر یہ بات نہ ہوتی تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہیرے جواہرات کا بیوپار کرنے والے ایک ایک ہیرے کو چھپا کر رکھتے ہیں سونے چاندی کے زیورات کا بیمہ کرالیا جاتا ہے اس لئے کہ چوری نہ ہو جائے کوئی اُٹھا کر نہ لے جائے کیا بیمہ والے احمق ہیں؟

اب اگر کوئی اپنی کم عقلی کی وجہ سے یہ کہے کہ چھپا کر رکھنے سے اشتیاق اور بڑھ جاتا ہے اور چوری کاخطرہ زیادہ رہتا ہے مثلاً جس صندوق کو نہ کھولنے کی تاکید نوکر کوکی جاتی ہے اسی صندوق پر اس کی نظر زیادہ ہوتی ہے۔ برقع پوش عورتوں کا جس قدرتعاقب کیا جاتا ہے بے پردہ عورتوں کا اتنا نہیں کیا جاتا۔تو یہ سب باتیں اس کی کم عقلی اور کم علمی کا ثبوت ہونگیں یہ دلائل اپنی جگہ بے وزن وبے جان ہیں اگر یہ دلائل مان لئے جائیں تو پھر مکان و دکان کے دروازے بھی بے کار بن جاتے ہیں اور انسان کے لئے کپڑے پہننا بھی بے وقوفی کی نشانی بن جائے گا کیونکہ کپڑے بھی تجسس پیدا کرتے ہیں۔

غرض عورت قدرت کی عظیم شے ہے اور دُنیا میں بہت ہی قیمتی چیز ہے جس کے لئے تخت وتاج کو بھی حقیر سمجھا گیا ہے اس لئے اس کی حفاظت اور نگرانی سب سے زیادہ ضروری ہے مردوں کی سلامتی اسی میں ہے۔

صفحہ نمبر۵۵:

عورتوں کی مسجد گھر ہے:

حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مروی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:عورتوں کے لئے بہترین مسجد گھر کا کونہ ہے(ترغیب ۱؍ ۱۴۱

صفحہ نمبر۵۷

میری امت کی عورتوں کا بہترین عمل یکسوئی اور (مردوں سے) کنارہ کشی ہے۔   (شرعی پردہ  ص ۱۲۰

صفحہ نمبر۵۸۔۵۹:

بے پردہ عورت اور ایک صحابی  کی غیرت:

ایک مرتبہ کسی موقع پر حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے فرمایا کہ اگر میں اپنی بیوی کو کسی مرد کے ساتھ دیکھوں تو میں اسے بلا ہچکچاہٹ تلوار سے قتل کردوں تو حضور اقدس  ﷺنے حاضرین سے ارشاد فرمایا کیا تمہیں سعد کی غیرت پر تعجب ہوتا ہے میں سعد سے زیادہ غیرت مند ہوں اور خدا مجھ سے زیادہ غیور ہے۔

جنتی خاتون:

نبی کریم  ﷺ کا فرمان ہے:

جب عورت پانچویں وقت کی نماز کی نماز پڑھے اور ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اپنی شرم و آبرو کی حفاظت کرے اور شوہر کی فرمانبردار رہے تو پھر (اسے حق ہے کہ) جنت کے جس دروازے سے چاہے اس میں داخل ھو۔ (حلیہ ابو نعیم ٗ آئینہ معلومات۔ مکاشفتہ القلوب   ص ۶۱۶

ایک نوجوان صحابی   کی غیرت:

حضرت سیدنا ابوسائب رضی اللہ عنہ ایک نوجوان صحابی تھے وہ باہر سے گھر آئے تو اپنی بیوی کو دروازے پر کھڑا دیکھ کر غصے سے لال ہو گئے نیزہ تیار کیا کہ بیوی کو ماردوں۔ یہ صورت دیکھ کر بیوی نے کہا:  پہلے اندر جا کر دیکھ لو کہ مجھے گھر کے دروازے پر کھڑا ہونے پر کس چیز نے مجبور کیا ہے پھر فیصلہ کرنا۔چنانچہ اندر جا کر دیکھا کہ ایک بڑاسانپ کنڈلی مارے چارپائی پر بیٹھا ہے ۔ آپ نے نیزے سے اس پر (جلدی میں) حملہ کیا اور سانپ نے جوابی حملہ کیا نتیجہ یہ نکلا کہ سانپ مر گیا اور صحابی بھی اس کے زہر سے شہید ہو گئے۔     (صحیح مسلم ٗ  فصل الخطاب   سندھی ۵۰ دختر ملت ص ۴۱

بتائو! جن لوگوں کی غیرت عورت کے دروازے پر کھڑے ہونے کو گوارا نہیں کرتی تھی وہ سفر میں بے نقاب کہاں لئے پھرتے ہوں گے۔

صفحہ نمبر۶۰:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا کہ اگر تیرے مکان میں کوئی بھی شخص تیری بلااجازت جھانکے تو تیرے واسطے اس کی آنکھ کنکری مار کر پھوڑ دیتا جائز ہے تجھ پر کوئی جرم عائد نہ ہوگا۔   (بحوالہ تجرید بخاری شریف     جلد ۲ ص ۳۲۸

صفحہ نمبر۶۴ تا ۶۸:

فیشن ایبل عورتیں:

جو عورتیں مصنوعی حسن کی دلدادہ ہوتی ہیں اور اس کے لئے جسم سازی اور خود نمائی کے نت نئے طریقے ایجاد کرتی ہیں یہاں تک کہ فطری ساخت بدل دینے کے لئے بھی طرح طرح کے جتن کرتی ہیں اور جو لباس کو جسم کو چھپانے کے بجائے اس کے محاسن کو نمایاں کرنے کے لئے پہنتی ہیں اور ایسے ایسے فیشن ایجاد کرتی ہیں کہ عورت کپڑے پہن کر بھی ننگی ہی رہتی ہے ان کا ذکر نبی  ﷺ نے ان الفاظ میں کیا ہے

عن      عبداللہ قال:  لعن     رسول اللہ ﷺ الواصلۃ والمستو صلۃ والوشمۃ والمستوشمۃ

حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے مصنوعی بال لگانے والیوں اور لگوانے والیوں اور گودنے والیوں اور گودوانے والیوں پر لعنت کی ہے۔

ایک دوسری روایت ہے:

نھیٰ رسول اللہ ﷺ    عن عشر: عن       الوشر والو شم والنتف و عن مکامعۃ المرأۃ المرأۃ بغیر شعار۔

رسول اللہ  ﷺ نے دس چیزوں سے منع فرمایا ہے ایک دانتوں کو نوکیلا اور چمکدار بنوانے سے ٗ دوسرے گودنے سے ٗ تیسرے حاجب وابرو کے نوک پلک نکلوانے سے ٗ چوتھے اس بات سے کہ عورت عورت کے ساتھ بغیر لباس کے ہم آغوش ہو۔ سنن ابن دائود ٗ کتاب الرجل باب ۵ ٗ  کتاب اللباس  باب ۸)

بعض روایات میں اس ضمن میں  متنمصات              کا لفظ بھی آیا ہے جس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو نوک پلک درست کرنے کے لئے ابرو کے بال اکھڑوادیتی ہیں۔نیز متفلجات      للحسن اور المغیرات خلق اللہ کے الفاظ بھی آئے ہیں جن سے مراد وہ عورتیں ہیں جو خوبصورتی پیدا کرنے کے لئے اپنے دانتوں میں مصنوعی فصل پیدا کرتی ہیں اور اپنی قدرتی ساخت کی ٗ اپنے زعم کے مطابق دوسری ناہمواریوں کو درست کراتی ہیں۔

ان حدیثوں میں جن چیزوں کا ذکر آیا ہے یہ عرب میں زمانۂ جاہلیت کی شوقین اور فیشن ایبل عورتیں بنائو سنگھار (میک اپ) کے خیال سے کرتی تھیں آپ اس فہرست میں ان چیزوں کا اضافہ کر لیجئے جو جاہلیت جدیدہ نے ان مقاصد کے لئے ایجاد کی ہیں ان احادیث میں نفسِ بنائو سنگھار کی ممانعت نہیں ہے بلکہ اس غیر فطری بنائو سنگھار کی ممانعت ہے جس میں عورت قدرت کی صنعت کی اصلاح کے درپے ہوتی ہے اور بگڑی ہوئی چیز کو درست کر لینے کے بجائے قدرت کی بنائی ہوئی چیز کو بگاڑنے کی سعی کرتی ہے۔

عورتوں کے لئے چست کپڑے پہننا سراسر احرام ہے:

امیر المومنین حضرت عمر فاروق  ؓ کا ارشاد ہے کہ اپنی عورتوں کو ایسے کپڑے ہر گز نہ پہنایا کرو جو جسم پر اس طرح جست ہوں کہ سارے جسم کی ہیئت نمایاں ہو جائے یہ سراسر حرام ہے۔  (بحوالہ المبسوط باب الاستحسان

مردوں کے طور طریقے احتیار کرنے والی اللہ کی لعنت یافتہ عورت:

حضرت عائشہ ؓسے کسی نے عرض کیا کہ ایک عورت مردانہ جوتا پہنتی ہے یہ سن کر حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایسی عورتوں پر سخت لعنت فرمائی ہے جو مردوں کے طور طریقے اختیار کریں۔  (بحوالہ حدیث ابودائود  مشکوٰۃ  ص ۳۸۳

اللہ کا غضب کن عورتوں پر؟

حدیث:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا کہ چار آدمیوں پر اللہ تعالیٰ صبح وشام ہر آن غصے وغضب میں ہوتے ہیں۔میں نے پوچھا یا رسول اللہ  ﷺ وہ کون ہیں؟آپ  ﷺ  نے فرمایا ایک وہ عورت جو مردوں کی مشابہت اور طرز وروش کو اختیار کرتی ہے ٗ دوسرا وہ مرد جو عورتوں کی مشابہت و طریقے کو اپناتا ہے تیسرا وہ شخص جو مردوں سے قضائے شہوت کرتا ہے چوتھا وہ شخص جو چوپائے سے غیر فطری حرکت کرتا ہے۔ ( الترغیب والترہیب

حدیث:

حضرت ابن عمر ؓ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا (میری امت میں سے) جو مردوعورت

کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے گا وہ قیامت کے روز انہی کے ساتھ اُٹھے گا (یعنی اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا جس قوم کی مشابہت وہ اختیار کرے)(حدیث ترجمہ ابودائود شریف ج ۲ ص ۸۳۳ ج ۳۷۵۱ کتاب اللباس واحیاء

ناظرین کتاب!

ان مبارک احادیث اور مدلل روایات کی روشنی میں آج کی ان مسلم عورتوں کی حالت و عادت قابل حیرت ہے کہ مسلمانی کادعویٰ کرنے کے باوجود جو عورتیں مردوں کی طرح سر کے بال کٹوا کے ہیروبنتی ہیں اور پف کٹنگ بال رکھتی ہیں اور مردانہ لباس پہن کر بے حیاو بے شرم اور بدکردارعورتوں کی طرح گھومتی پھرتی ہیں۔ نہ ہاتھوں میں چوڑی نہ کانوں میں بالیاں اور نہ سینے پر کپڑا ہوتا ہے یہ طرز بالکل مغربی عورتوں کا ہے نہ کہ مسلمان عورتوں کا ایسی خواتین پر خدا کی لعنت ہے لہٰذا جو عورتیں اللہ اور یوم آخرت پر واقعی ایمان رکھتی ہیں ان پر واجب ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ اس ناپاک طرز عمل اور قبیح حرکتوں سے باز آجائیں یہ تشبہ و طریقہ اسلام میں سراسرنا جائز وحرام ہے۔

مُسلمان عورتوں کو مغربی عورتوں کی تقلید و انگریزی لباس وطریقے اختیار کرنے سے منع کرنے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ عریاں لباس و کپڑے پہن کر ان کے دل ودماغ کی خواہش یہی ہوگی کہ دوسروں کو دکھائیں اور اس خواہش کی تکمیل کے لئے یہ لازمی ہوگا کہ بے پردگی اختیار کر یں۔ کلبوں ٗ بازاروں ٗ مجلسوں اور مردوں میں جا کر اپنی خواہش پوری کریں اب کیا اسلام کی یہی وقعت ہے کہ تم مسلمان عورتیں غیر مسلموں کی معاشرت وطرز عمل اختیار کرکے زبان حال سے اسلام کا ناکافی ہونا ظاہر کرو؟

دوسری قوموں کی معاشرت اختیار کرکے وہ امتیاز قومی کہاں رہا جس کے مسلمان بڑے مدعی ہیں اور مذہب اسلام وہ کی وقعت و عزت کہاں رہی جس کے مسلمان حامی ہیں؟

اور وہ حقیقی آزادی کہاں گئی جو شریعت ہی کی معاشرت میں ہے برخلاف جدید معاشرت کے جس میں سراسر تنگی ہی تنگی ہے یہ غیر اسلامی لوگ اس وقت تک کھانا نہیں کھا سکتے جب تک کرسی اور میز نہ ہو اور اہل ایمان لوگ جب چاہیں پلنگ پرکھالیں ٗ بستر پر کھالیں بورئیے پر کھالیں اور اگر چاہیں تو زمین پر بھی کھالیں جو کہ سنت رسول   ﷺ ہے ایمان والوں کے لئے غیر مسلموں کی طرح کوئی قید نہیں اب اس بات کا ذرا انصاف سے فیصلہ کریں کہ آزادی کی حالت میں کون ہے؟

یہ تو میں نے اسلامی معاشرت کے صرف ایک پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ اسلامی معاشرت کے ہر شعبے میں اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو وسعت ہی وسعت ہے تنگی سراسر دوسری قوموں کی معاشرت میں ہے اور یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول  ﷺ کی شریعت سے آزاد ہیںور نہ یہ لوگ مقید ہیں۔

صفحہ نمبر۶۹:

اور خواتین کو خوبصورت لباس ٗ زیبائش اور زیورات کے پہننے کی اجازت صرف اپنے شوہروں کے لئے دی۔ آپ  ؑ نے عورتوں کو اس بات سے روکا کہ وہ بن ٹھن کر اپنا حسن غیر وں کو دکھاتی پھریں اور دوسری عورتوں کے سامنے اپنے زیورات اور لباس کی شیخی بگھارتی پھریں۔ حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ:

جنت میں مجھے عورتیں کم نظر آئیں۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ان کو زیور اور رنگین کپڑوں نے مقید کیا ہوا  (سیرت محمد  ﷺ

صفحہ نمبر۷۰۔۷۱:

لباس پہنے کے باوجود بھی ننگی عورتیں:

ایک حدیث میں آیا کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا

لعن      اللہ الکاسیات العاریاتّ

یعنی  ’’ان عورتوں پر خدا کی لعنت ہے جو لباس پہن کر بھی ننگی کی ننگی رہیں۔‘‘

مطلب اس حدیث پاک کا یہ ہے کہ آج کل مسلم عورتوں میں جو مغربی جدید طریقے پائے جاتے ہیں  عریاں لباس کا پسند کرنا اور بدن کا اکثر حصہ چھوڑ کر کپڑا پہننا جو پہن کر ننگی رہیں اور ایسے جدید طریقے پر کپڑا بنانا جسے پہننے کے بعد بدن کے نیچے کا حصہ اور بالائی حصہ بالکل کپڑے سے خالی رہے اور بعض پوشاکوں میں تو آستین اور بازو کا حصہ بھی غائب رہتا ہے۔ غرض اس طرح کی جتنے پوشاکیں ہیں جو نئے نئے ڈیزائن اور نئی نئی کٹنگ سے مسلمان خواتین میں رائج ہیں یہ سب شرع میں حرام ہیں اور اس جدید طرز اور عریاں چال ڈھال سے پہننے اور چلنے والوں پر خدا کی لعنت ہے اور اس گندی اور بے حیا تہذیب کو وہی عورت اپنا سکتی ہے جو اپنی آبرو اور عصمت کو کھو چکی ہے اور جو اسلام کی دُشمن اور خدا سے باغی ہے۔

صفحہ نمبر۷۲:

زیب و زینت کا لباس پہننے والی عورت پر لعنت:

ایک اور حدیث میں حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور  ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ قبیلہ مزینہ کی ایک عورت زیب و زینت کا لباس پہنے مٹکتی ہوئی آتی تو حضور  ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:اے لوگو! اپنی عورتوں کو زیب و زینت کا لباس پہننے اور مسجد میں مٹکنے سے روکو ٗ کیونکہ بنی اسرائیل پر اس وقت تک لعنت نہیں کی گئی جب تک اُس کی عورتوں نے زیب وزینت کا لباس پہننا اور مسجدوں (تک) میں مٹکنا اختیار نہیں کیا۔ (ابن ماجہ

صفحہ نمبر۷۴:

مصنوعی بال لگانے والیوں پر لعنت:

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ایک خاتون نےنبی کریم  ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ  ﷺ میری لڑکی کو خسرہ ہو گیا ہے اور اس میں مصنوعی بال لگا دوں؟حضور  ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے مصنوعی بال لگانے والی اور جس کے لگایا جائے دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔تفہیم البخاری پارہ ۲۴ ص ۶۲۴ جلد سوم

صفحہ نمبر۷۹ تا ۸۳:

جہنم کی پروانہ یافتہ فیشن ایبل عورتیں:

رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا ہے کہ:

جو عورتیں کپڑے پہن کے بھی ننگی ہی رہتی ہیں اور اپنے اعضاء کو لچکاتی ہوئی اور لچکتی ہوئی چلتی ہیں ٗ جن کی گردنیں بختی اُونٹ کی طرح ناز سے ٹیڑھی رہتی ہیں ٗ نہ وہ جنت میں داخل ہوں گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی۔

ا للہ کی رحمت کا دروازہ کن عورتوں کے لئے بند ہوتا ہے:

بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا

خوشی اور رحمت کا دروازہ اس گھر کے لئے بند سمجھ ٗ جس گھر سے عورت کی آواز غیر کو سنائی دے۔   (حدیث بخاری و کیمیا ئے سعادت

ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ  ؓ آنحضرت  ﷺ کے حجرے میں بیٹھ کر کلام پاک کی تلاوت فرما رہی تھیں ٗ سرکار دوعالم  ﷺ جب حجرے سے باہر تشریف لائے تو دیوار کے ایک سوراخ سے حضرت عائشہ صدیقہ کی تلاوت کی آواز سنائی دی آنحضرت  ﷺ نے فوراً مٹی کا ایک بڑا سا ڈھیلا لے کر اس سوراخ کو بند کِیا تاکہ حضرت عائشہ ؓ  کی آواز باہر والوں اور غیر محرموں کو سنائی نہ دے۔

(بیان کردہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی)

جہنم میں بالوں سے لٹکی ہوئی عورتیں اور ان کا کھولتا ہوا دماغ:

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہمراہ بارگاہ رسالت  ﷺ میں حاضر ہوا۔ حضور  ﷺ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ ہم نے سبب گریہ دریافت کیا تو ارشاد فرمایا:

میں نے شب معراج عورتوں کے عذاب دیکھے تھے آج وہ منظر پھر یاد آگیا ٗ اسی لئے رونا آگیا۔عرض کیا ہمیں بھی ارشاد ہو کہ آپ  ﷺ نے کیا کیا ملا حظہ فرمایا؟میں نے دیکھا کہ ایک عورت بالوں سے لٹکی ہوئی ہے اور اس کا دماغ کھول رہا ہے یہ اس عورت کی سزا تھی جو اپنے بال غیر مردوں سے نہیں چھپاتی تھی۔مزید ایک عورت کو دیکھا کہ اس طرح لٹکائی گئی کہ چاروں ہاتھ پائوں پیشانی کی طرف بندھے ہوئے ہیں سانپ اور بچھو اس پر مسلط ہیں یہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلتی تھی اور حیض و نفاس سے غسل نہیں کرتی تھی۔مزید ایک عورت کو دیکھا کہ اس کا جسم آگ کی قینچی سے کاٹا جا رہا تھا یہ اس عورت کی سزا تھی جو اپنا جسم اور زینت غیر مردوں کی دکھاتی تھی۔ایک اور عورت کو ملا حظہ فرمایا کہ وہ کتے کی مانند ہے اور سانپ اور بچھو اس کے قبل (یعنی آگے) سے گھستے ہیں اور دبر یعنی پیچھے سے نکلتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فرشتے آگ کے ہتھوڑے بھی اسے مار رہے ہیں۔ آپ  ﷺ کی خدمت میں بتایا گیا یہ اپنے شوہر سے بغض رکھنے والی تھی۔  (درۃ الناصحین) ۔۔۔۔۔۔

بے پردہ عورتیں اور دوزخ کی آگ:

حضرت ام سلمہ  ؓ کا بیان ہے کہ ایک رات رسول اللہ  ﷺ نیند سے بیدار ہوئے اور فرمایا سبحان اللہ آج کی شب کیا کیا رحمتیں اور عذاب نازل ہوتے دکھائی دئیے۔ جائو تم عورتوں سے کہہ دو کہ قیامت کے روز بہت سی عورتیں جو دُنیا میں عمدہ عمدہ کپڑے پہن کر بے پردگی سے گھومتی پھرتی ہیں بالکل برہنہ ہوں گی اور وہ سب عورتوں دوزخ کی آگ کے لپیٹ میں آجائیں گی۔  (بحوالہ تجرید بخاری ٗ جلد ا ٗ ص ۳۶ ٗ  ج ۹۵

اللہ کی لعنت اور عذاب کی مستحق عورتیں:

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے ہیجڑوں اور مردوں کی شکل و صورت ٗ طرز وروش اور مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر سخت لعنت فرمائی ہے اور ایسے مردوں پر بھی حضور  ﷺ نے لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کی مشابہت و طرزوروش کو اختیار کریں اور حضور  ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ایسے مرد اور عورتوں کو گھر سے نکال دو (یہ سب خدا کے عذاب کے مستحق ہیں)۔‘‘یہ فرما کر فلاں شخص کو حضور  ﷺ نے خود نکال دیا اور حضرت عمر فاروق نے بھی فلاں عورت کو گھر سے نکال دِیا تھا۔  (بحوالہ تجرید بخاری ٗ جلد ۲ ٗ  ص ۵۳۲ ٗ  ج ۱۹۳۳ باب اللباس

باریک کپڑے پہننے والی عورتیں جہنم میں سب سے زیادہ ہونگی:

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ  ﷺ نے فرمایا خدا کی جہنم میں سب سے زیادہ عورتیں ہوں گی ٗ بالخصوص وہ عورتیں سب سے زیادہ ہوں گی ٗ جو بظاہر تو کپڑے پہنے ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں ننگی ہیں (نہایت ہی باریک کپڑے پہننے والی عورتیں جن کے جسم کے سارے نشیب وفراز اور ہیئت باوجود کپڑے  ہونے کے بھی نمایاں ہوتے ہیں اور بدن کی پوری حالت باہر سے جھلکتی ہے ٗ جو کہ نفس پرست اور عیاش عورتوں ہی کی شان ہے کسی مسلمان عورت کو ایسے لباس زیب تن  کرنا زیب نہیں دیتا اور نہ شرافت اجازت دیتی ہے)۔اور لوگوں کے دلوں میں خواہش پیدا کرنے والی عورتیں (یعنی نہایت تکلف اور بنائو سنگھار کرنے والی اور فطری انداز سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے والی عورتیں ٗ جو باتیں آج کل اسکول کالج کی لڑکیوں کے اندر زیادہ پائی جاتی ہیں)۔اور وہ عورتیں جو ناز سے شانوں کو گھما کر لچکدار  چال سے چلیں گی (جو چال بالکل ایک رنڈی اور فاحشہ عورت کی ہے) اور سینے کی ہئیت ظاہر کرکے طوائف کی طرح چلیں گی اور پنڈلی ننگی ٗ سر ننگا اور بالوں کی چوٹیاں لہرا لہرا کر رقاصہ عورت کی طرح بے حیائی کے ساتھ سڑکوں میں بازاروں میں گھومتی پھریں گی اور چلتے ہوئے اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھیں گی کہ ہم پر نہ جانے کتنے لوگ فریفتہ اور ہماری حرکت و چال اور پوشاک پر نہ جانے کتنے شیفتہ ہیں اور نہ معلوم کیا کیا اس کے دل سے ناپاک نیتیں گزرتی ہوں گی۔جب کہ خدا اور خدا کے رسول  ﷺ کی نگاہ میں اس کی قیمت غلاظت کے کیڑے سے بھی زیادہ گری ہوئی اور بدتر ہے ٗاس کے بعد حضور  ﷺ نے فرمایا:’’اے دُنیا کے لوگو! یاد رکھو ایسی عورتیں خدا کی جنت میں ہرگز داخل نہ ہوں گی ٗ اور نہ جنت کی خوشبو پائیں گی جب کہ جنت کی خوشبو بے حساب فاصلے سے آئے گی۔‘‘  (بحوالہ ترجمہ صحیح مسلم شریف ٗ  جلد ۲ ص ۲۱۴ کتاب اللباس والزینتہ

صفحہ نمبر۸۹:

علامہ لوئس پیرول نے زیویو آف ریویوز جلد نمبر ۱۱ میں ’’پولیٹیکل فساد‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے ٗ اس میں کہتا ہے کہ

اعلیٰ درجے کے اخلاق کی بنیادیں منہدم کرنے میں سب سے زبردست کا رکن عورت رہی ہے۔مسلمان عورت

پھر آگے چل کر رقم طراز ہے۔

رومی جمہوری حکومت کے پچھلے دَور میں مدبران سلطنت اور اعیان مملکت نازک مزاج اور عیش پسند عورتوں کی صحبت بہت پسند کرنے لگے تھے اور ایسی عورتیں ان دِنوں بکثرت پائی جاتی تھیں۔    (بحوالہ ایضاً

ایک انگریز ادیبہ لیڈی کوک اپنے اخبار (الایکو) میں لکھتی ہے۔

مرد بے روک ٹوک عورتوں سے میل جول اور اختلاط چاہتے ہیں اس چیز نے عورتوں کو اپنی فطر ت کے خلاف مردوں کی طرف مائل کر دیا ہے۔ اس بے قیدی اور بے راہ روی سے حرام کاری میں اضافہ نہیں تو اور کیا ہوگا۔ مرد کا تو کچھ نہ بگڑے گا مگر عورت کے لئے یہ بڑی آزمائش اور مصیبت ہوگی۔

لیڈی کوک مزید لکھتی ہے۔

ابھی کیا وقت نہیں آیا کہ اہم ایسی تدابیر واقدامات پر غور کریں جو ان مصائب کو اگر یکسر ختم نہ بھی کر سکیں تو کم اور ہلکا تو کر دیں۔ کہ اخلاق و کردار کا بڑھتا ہوا بگاڑ حد درجہ بدنامی اور بے عزتی بلکہ نحوست کا نشان بن گیا ہے؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم ایسی تدابیر اختیار کریں جن سے لاکھوں کی تعداد میں ان بے گناہ بچوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکے جن کا اپنا کوئی قصور نہیں۔ قصور ہے تو ان جنسی دیوانگی میں مبتلا مردوں کا ہے جو کم عقل اور نادان عورتوں کو اپنی جنسی ہوس کے جال میں پھانس کر حرام اولاد پیدا کرتے ہیں۔

صفحہ نمبر۹۰:

چند ٹکوں کی خاطر اپنی بھولی بھالی بیٹیوں کو ملازمتوں اور مزدوریوں پر مجبور کرنے والے والدین کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے اگر آپ اپنی عزت اور اپنی بہو بیٹیوں کی عزت بچانا چاہتے ہیں تو انہیں غیرمحرم مردوں سے الگ رہنے اور ان میں گھلنے ملنے سے بچنے کی تلقین کریں انہیں مردوں کے مکروفریب کے بھیانک انجام سے آگاہ کریں جو غیر محرموں سے بے روک ٹوک اختلاط اور بے پردگی کے نتیجے میں ان کے سامنے آکے رہتا ہے۔تازہ ترین اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول کے سبب ناجائز حمل کثر ت سے بڑھ رہے ہیں اور کنواری مائوں کی بھاری اکثریت یا تو کارخانوں اور دفتر وں میں کام کرنے والیوں کی ہے یا گھریلو خادمائوں کی ہے۔ اگر اطباء اسقاط حمل کی دوائیں نہ دیتے اور مانع حمل دوائوں کا رواج نہ بڑھ جاتا تو یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتی۔ یہ صورت حال انتہائی شرمناک اور تہذیب و معاشرت میں بگاڑ اور گراوٹ کی انتہا ہے ۔بحوالہ آزاد نسواں کا مغربی تصور

صفحہ نمبر۹۱۔۹۲:

پردہ ہندوستان کے مہاراج کی نظر میں:

اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام میں اس لئے تبلیغی مذہب ہونے کی صلاحیت نہیں کہ اس میں عورتوں کو قید رکھنے اور گھر کی چار دیواری بنانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔میں باور کرتا ہوں کہ یہ اعتراض بہت زیادہ ناواقفیت پر مبنی ہے۔ اول تو یہ سمجھنا چاہئے کہ پردہ عورت کا فطری خاصہ ہے۔ جن ممالک میں عورتوں کو مردوں کے برابر آزاد سمجھا جاتا ہے وہاں کی عورتوں سے ملاقات اور ان کے کمرے میں آنے جانے کے آداب زیادہ خاص ہیں۔

دوم ہندوستانیوں کے واحد مقنن مذہب منوجی مہاراج کی سننا چاہئے۔

(۱)

عورت کھلی رکھنے کے قابل نہیں۔    (ادھیا۸ فقرہ ۳

(۲)

عورت کو ذرا ذرا سی بُری صحبتوں سے بچنا چاہئے۔ غیر محفوظ عورت دونوں طرف کے خاندان کو بدنام کرتی ہے۔ادھیا ۹ فقرہ ۵

(۳)

عورت نہ شکل دیکھتی ہے نہ عمر کو۔ مرد خواہ خوبصورت ہو یا بدصورت یہ اسی سے پھنس جاتی ہے۔ (۹۔۱۴ منوسمرتی

فقرات بالا سے بخوبی ظاہر ہو گیا کہ عورت کے پردے کا ذکر منوجی نے بھی کیا اور ضروریات پردہ کی وجوہ اور دلائل بھی بتائے جسے زمانہ حال کا فلاسفر کہہ دے گا کہ یہ تو صاف طور سے عورتوں کی خود داری اور اعتماد پر حملہ ہے۔

پردہ اور ہندوستان کے قدیم باشندوں کا دستور

عورتوں کو گھروں میں بند رکھنا ہندوستان کے قدیم باشندوں کا دستور تھا۔ ذاتوں کی تقسیم کے ساتھ ساتھ شریف عورتوں کا گھر سے نکلنا بند کر دیا گیا تھا۔

مسز ایف سی داس کا نقطہ نظر:

مسز ایف سی داس‘‘ اپنی کتاب  ’’پردہ‘‘ میں رقمطراز ہیں:

’’مہا بھارت میں عورتوں کے گھروں میں بند رہنے کے آثار پائے جاتے ہیں مگر اس زمانے میں یہ شاہی گھرانوں تک محدود تھا۔ اور اسے تمغہ شرافت سمجھا جاتا  تھانہ کہ شان سے بے اعتمادی۔‘‘

صفحہ نمبر۹۶۔۹۷:

عورتوں کو صرف سخت ضرورت کے وقت باہر نکلنے کی اجازت:

ایک دفعہ آپ  ﷺ نے مواقع ضرورت پر ازواج مطہرات کو خطاب کرکے فرمایا

قد اذ  ن لکن ان تخرجن لحاجتکن

یعنی تمہارے لئے اس کی اجازت ہے کہ تم اپنی ضرورت کے لئے باہر نکلو (لیکن برقع وغیرہ کے پردہ کے ساتھ)۔(الحدیث مسلم شریف و تفسیر معارف القرآن جلد ۷ ص ۱۳۳)

لیس        للنساء نصیب فی الخروج الا مضطرۃ

یعنی ارشاد رسول اللہ  ﷺ ہے کہ خواتین کا گھر سے باہر نکلنے کا کوئی حصہ نہیں بجز اس کے کہ باہر نکلنے کے لئے کوئی سخت ضرورت پیش آجائے ٗ یا کوئی سخت مجبوری سامنے آجائے۔

الحدیث بحوالہ رواہ طبرانی کذافی کنز جلد ۸ ص ۲۶۳)

صفحہ نمبر۹۹:

نزول حجاب اور ایک عورت کی بے پردگی اور یہودیوں کا محاصرہ:

باقاعدہ نزول حجاب (ذیقعدہ سنہ ۵ ہجری) سے قبل یہودی عورتیں بھی ایسا پردہ کرنے کی عادی تھیں جس میں ان کا چہرہ چھپا رہتا تھا جنگ بدر اور جنگ اُحد واقعہ سنہ ۳ھ سے قبل جب ایک عورت منہ پر نقاب ڈالے نبی قینقاع کے یہودیوں کے بازار واقع بیرون مدینہ منورہ میں ایک سنار کی دکان پر کسی زیور کے سلسلے میں بیٹھی ہوئی تھی تو یہودیوں نے اسے منہ کھولنے پر مجبور کیاعورت کے انکار پر انہوں نے کوئی ایسی شرارت کی کہ جس سے اس کا پردہ کھل گیا اور یہودی ہنسنے لگے۔ باغیرت خاتون نے اس پر چیخ ماری جسے سن کر ایک مسلمان نے اس یہودی کا کام تمام کر دیا اور یہودیوں نے اٹھ کر اس مسلمان کو شہید کر دیا جس کی خبر پا کر حضور نبی کریم  ﷺ نے وہاں کے سات سو یہودیوں کا جن میں تین سو مسلح تھے محاصرہ کر لیا حضور  ﷺ نے ایک سفارش پر ان کو قتل کرنے سے تو درگزر فرمایا لیکن مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ان یہودیوں کے اموال بطور غنیمت لوٹ کر باہم تقسیم کر لیں اور ان کو ملک بدر کر دیا جائے۔

چنانچہ ایسا ہی کیا گیا جو سارے کے سارے چند دِنوں کے بعد ملک شام میں جلاوطنی کی حالت میں ہلاک ہو گئے جس کی تفصیل سیرۃ ابن ہشام ٗ تاریخ کا مل ابن اثیر و دیگر کتب تاریخ میں دیکھی جا سکتی ہے غرضیکہ کے دو ر تہذیب و تمدن اور دَور جاہلیت دونوں میں ایک ہی نوع کا پردہ رائج تھا جس میں چہرہ بھی چھپا ہوا ہوتا تھا۔

صفحہ نمبر۱۲۰:

جب نقاب اُٹھتا ہے تو حیا چلی جاتی ہے:

ہمیں جناب ماہر القادری صاحب کی اس رائے سے پورا اتفاق ہے کہ

ذوق بے حجابی اور شوق تبرج صرف چہرے کی بے نقابی پر ہی قناعت نہیں کرتا ٗ پہلے نقاب اُٹھتا ہے پھر جھکی ہوئی نگاہیں آہستہ آہستہ بلند ہوتی ہیں۔ پھر لباس میں تخفیف ہونا شروع ہوتی ہے ٗ پھر آرائش اور بنائو سنوار میں یہ جذبہ کار فرما ہوتا ہے کہ لوگ دیکھیں اور شوق و قدر دانی کی نگاہ سے دیکھیں ٗ ہو سنا کیوں ٗ بے اعتدالیوں اور برائیوں کا یہ سلسلہ شاخ در شاخ ہوتا چلا جاتا ہے ٗ یہاں تک کہ جو عورت پہلی بار چہرے کو بے نقاب کرتے ہوئے شرم و غیرت سے پسینہ پسینہ ہوگئی تھی وہ آگے چل کر کلب گھروں میں غیر مردوں سے بغلگیر ہوکرنا چتی اور تھرکتی ہے۔   (فاران دسمبر۵۱

صفحہ نمبر۱۴۶تا۱۵۰:

پاکستانی خواتین کی بے پردگی پر ایک سکھ خاتون کا تبصرہ:

پاکستان میں کرکٹ میچ دیکھنے جالندھر سے آنے والی خاتون کلدیپ فتح سنگھ نے نمائندہ زندگی کے سوا ل  کے جواب میں کہا:

میں نے شدت سے جو بات محسوس کی وہ یہ کہ میری نظر اِسلامی معاشرے کی اس عورت کو تلاش کرتی رہی جو اسلامی تاریخ کے صفحہ قرطاس پر ایک اعلیٰ کردار ٗ عزت و عصمت کی مورت اور پردے کی دلدادہ عورت تھی اور جس کی اسلام سے والہانہ محبت اور اسلامی قدروں سے گہری وابستگی تھی ٗ وہ کہیں نظر نہ آئی۔یہاں کی عورت فیشن پرستی میں یورپ کے شانہ بشانہ چل رہی ہے۔ ہم خود کو تو اس سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں کیونکہ ہندوئوں اور سکھوں کے یہاں پردے کا اتنا اہتمام شروع سے ہی نہیں لیکن مسلمانوں کے یہاں تو پردے کی شروع سے ہی خاص اہمیت رہی ہے۔مجھے یہاں آکر ایسا لگا جیسے اکثر پاکستانی عورتوں نے پردے کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔ میں آٹھ دس سال پہلے بھی آئی تھی لیکن اس وقت میں اور آج میں نمایاں فرق محسوس ہوا۔اس وقت پاکستانی مسلمان عورت کو اس طرح کھلے بندوں پردے سے بے نیاز پھرتے نہیں دیکھا تھا۔ آج کی عورت کو دیکھ کر تو عقل حیران رہ گئی اگر میری بات کا بُرا نہ مانیں تو مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ پاکستانی عورت کا ایک طبقہ مغربی تہذیب کی پرورش میں گھرا ہوا ہے ایک اسلامی ملک کی عورت کو ایسا نہیں ہونا چاہئے۔مجھے تو کم از کم عورت کو ایسے بیباکانہ انداز میں پھرتے دیکھ کر شرم محسوس ہوئی ۔ (ہفتہ روزہ زندگی لاہور۔ نومبر ۷۸)

صفحہ نمبر۱۵۴۔۱۵۵:

ایک انگلستانی خاتون کی حسرت:

انگلستان کی ایک شریف عورت نے بصد حسرت وندامت اپنے ملک کی عورتوں کے متعلق ایک مقالہ لکھا ہے جس کا ترجمہ مصر کے ماہنامہ ’’المنار‘‘ میں شائع ہوا ہے۔جس میں یہ تھا کہ:

’’انگلستان کی عورتیں اپنی عفت اور عصمت کھو چکی ہیں اور ان میں بہت کم ایسی ملیں گی جنہوں نے اپنے دامن عصمت کو حرام کاری کے دھبے سے آلودہ نہ کیا ہو۔ ان میں شرم وحیا ء نام کو بھی نہیں اور ایسی آزادانہ زندگی بسر کرتی ہیں کہ اس ناجائز آزادی نے ان کو اس قابل نہیں رہنے دیا کہ ان کو انسانوں کے زمرے میں شامل کیا جائے۔ ہمیں سر زمین مشرق کی مسلمان خواتین پر رشک آتا ہے جو نہایت دیانت اور تقویٰ کے ساتھ اپنے شوہروں کے زیر فرمان رہتی ہیں اور ان کی عصمت کا لباس گناہ کے داغ سے ناپاک نہیں ہوتا۔ وہ جس قدر فخر کریں ٗ بجا ہے اور اب وہ وقت آرہا ہے کہ اسلامی احکام شریعت کی ترویج سے انگلستان کی عورتوں کی عفت کو محفوظ رکھا جائے۔‘‘

پردہ اور وان ہیمر کی ریسرچ:

وان ہیمر کہتا ہے کہ:

’’پردہ کو اسلام نے ضروری اور عورتوں کو اجنبیوں سے میل جول رکھنے کو جو حرام قرار دیا ہے اس کا مفہوم ہرگز یہ نہیں کہ عورتوں سے اعتماد کے جذبے کو فنا کر دیا جائے بلکہ یہ ایک وسیلہ ہے ان کی ناموس کی حفاظت و احترام کا ٗ اور ذریعہ ہے ان کی رسوائی کی روک تھام کا۔ درحقیقت اسلام کی نظر میں عورت کا جو درجہ ومقام ہے وہ یقینا قابل رشک ہے۔‘‘(اسلام کا نظام حیات صفحہ۱۹۰

صفحہ نمبر۱۶۴:

مشرقی عورتوں نے مغرب کی تقلید ہی کو زندگی کی معراج سمجھ رکھا ہے ۔ لیکن شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ خودمغرب بھی آج کل اپنی تہذیب سے نالاں ہے۔ چنانچہ لندن کے مشہور ماہنامے ’’لیڈیز میگزین‘‘ میں حال میں ایک انگریز خاتون کا مضمون شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں یہ خاتون لکھتی ہیں:

’’ہم بظاہر کتنے ہی خوش اور بشاش کیوں نہ دکھائی دیں لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ ہماری خانگی زندگیاں نہایت خراب ہیں۔ چنانچہ انگلستان میں سو میں سے نوے شادی شدہ جوڑوں میں کشیدگی اور خانہ جنگی پائی جاتی ہے۔ اس کشیدگی اور خانہ جنگی کی ذمہ داری سے اگرچہ مردوں کو بھی بے تعلق قرار نہیں دِیا جا سکتا ٗ مگر بڑی وجہ یہ ہے کہ انگلستان کی عورتیں اندھی آزادی کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ آگے بڑھ چکی ہیں اور ان کی غیر ذمہ دارانہ روش نے ہمارے گھروں کے سکون کو برباد کر دیا ہے۔ ہماری معاشرتی اور خانگی زندگی اب اس وقت تک درُست نہیں ہو سکتی جب تک کہ عورتوں کے دائرہ حقوق کو اور آزادی کو محدود نہیں کیا جائے گا۔‘‘

یہ کسی مشرقی عورت کے خیالات نہیں ہیں بلکہ ایک ایسی مغربی خاتون کے محسوسات ہیں جو انگلستان کی فضا میں پلی ہے اور اسی فضا میں اس نے اپنی ساری زندگی گذاری ہے۔ اس مغربی خاتون کی رائے تو یہ ہے کہ ہم عورتوں کی اندھی آزادی پر پابندی لگانی پڑے گی  لیکن مشرق کی عورتیں اس اندھی آزادی کی ظاہری چمک دمک سے متاثر ہو کر اسی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہیں اور انہوں نے وہ روش اختیار کر رکھی ہے جو دراصل انسائیت کی توہین ہے۔

صفحہ نمبر۱۷۳:

پردے میں برقعہ کے استعمال سے جسم اور چہرہ چھپ جاتا ہے لیکن ہاتھ کھلے رہتے ہیں۔ اسلامی تعلیم کی رو سے عورتوں کو حجاب کے استعمال کے ساتھ ساتھ دستانہ بھی استعمال کرنے چاہئیں۔

صفحہ نمبر۱۸۵۔۱۸۶:

دھوپ اور سورج سے بچائو کے لئے پردہ اور جدید ریسرچ:

میڈیکل تحقیق کے مطابق اگر خواتین سورج اور دھوپ کے وقت دوپٹہ یا اسکارف کا استعمال نہ کریں تو مندرجہ ذیل بیماریوں کا شکار ہو سکتی ہیں۔(کتاب  ’عورت کی اسلامی زندگی اور جدید سائنسی تحقیقات ‘‘ سے ماخوذ

(۱)

سورج کی شعاعیں اگر خواتین کی جلد پر مسلسل پڑتی رہیں تو جلد کا رنگ گہرا سیاہ یا  جھلسا ہوا ہو جاتا ہے۔

(۲)

سورج کی الٹراوائلٹ ریز اگر آنکھوں اور جلد پر پڑھتی ہے تو چہرہ پر جھریاں بڑھ جاتی ہیں۔

(۳)

ماونٹ سینا میڈیکل سینٹر نیویارک کے ماہر جلد رونلڈ شرمین ایم۔ڈی کے مطابق سورج کی شعاعیں جلد سے اپنی مرمت آپ کرنے کی صلاحیت چھین لیتی ہیں۔

(۴)

سورج کی روشنی پڑنے سے پیشانی پر لکیریں نمایاں ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

(۵)

عورت پردہ نہ کرے تو دھوئیں کے ذرات بڑی مقدار میں جسم میںداخل ہو جاتے ہیں اور اس سے جسم کے اندرونی نظام میں خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

(۶)

جدید تحقیق کے مطابق اگر سورج کی شعاعیں مستقل چہرہ یا جسم پر پڑتی رہیں تو بڑھاپے کے تل یا دھبّے جلد پر نمودار ہو جاتے ہیں اور جلد پر آبلے پڑ سکتے ہیں۔

(۷)

جسم کی جلد پر جب سورج کی شعاعیں پڑتی ہیں تو جلد پر موجودرگیس متاثر ہوتی ہیں۔

(۸)

سورج کی شعاعوں میں بالائے بنفشی (الٹراوائلٹ) شعاعیں ہوتی ہیں جو جلد کا سرطان پیدا کر سکتی ہیں۔

(۹)

سورج کی شعاعوں سے انسانی جسم کی قوت مدافعت کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔

(۱۰)

میڈیکل ریسرچ کے مطابق تیز دُھوپ سے بالوں کی چمک کم ہو جاتی ہے اور بالوں کا رنگ بھی اڑ جاتا ہے۔

صفحہ نمبر۱۸۸۔۱۹۰:

شریعت اسلامیہ نے عورت کے لئے ’’پردہ‘‘ کا اہتمام جو لازمی قرار دیا ہے ٗ تو اس اہتمام کی بنیاد بھی دوسری انسانی نفسیات پر رکھی گئی ہے یعنی عورت کی عصمت و عفت ایک انمول شے ہے اور اس شے کی قابل اعتماد حفاظت کے لئے عورت کو غیر مردوں کو نگاہ یا ان کی پہنچ سے چھپانا اور بچانا ضروری ہے۔

ذرا غور کیجئے کہ ایک پردہ دار عورت گھر کے اندر نامحرم مردوں کے سامنے نہیں آتی اور محرم مردوں کے ساتھ بھی معاملات طے کرتے وقت حجاب کا مظاہرہ کرتی ہے۔ گھر سے باہر نکلتی ہے تو اپنے آپ کو سرتا یا چادر یا برقع میں لپیٹ کر رکھتی ہے۔ اس کا حسن مستور رہتا ہے ۔ اس کے محاسن جسم کسی غیر مردکو دعوت نظارہ نہیں دیتے ٗ کسی شخص سے اس کی آنکھیں چار نہیں ہوتیں۔ کسی مرد سے وہ آزادانہ طور پر بات چیت نہیں کرتی۔بتائیے ایسی عورت کی عزت یا عصمت زیادہ محفوظ رہے گی یا اس عورت کی کہ جو گھر کے اندر ہر نامحرم مرد کے سامنے آتی ہے اور نامحرم نوجوان لڑکوں کے ساتھ بے حجابانہ انداز میں گھل مل جاتی ہے۔ باہر جاتی ہے تو جسم کے نشیب و فراز اور لباس کی خوبصورتی کو چھپانے کے لئے نہ چادر لیتی ہے نہ برقع! محرم و نامحرم کی کوئی تمیز نہیں ٗ گھر سے باہر عام دعوت نظارہ دیتی پھرتی ہے؟

کیا یہ انسانی نفسیات نہیں کہ ہم میں سے ہر شخص ’’مشکل‘‘ کے بجائے ’’آسانی‘‘ چاہتا ہے دشوار راستوں کی جگہ سہل راستوں کو اختیار کرتا ہے۔ موجود پسندیدہ چیز کو چھوڑ کر ٗ غیر موجود یا غائب  پسندیدہ چیز کے پیچھے پڑنا اِنسانی نفسیات کے خلاف ہے۔ بھوکے شیر کے سامنے اس کا ایک شکار کھلا پڑا ہوا ہواور دوسرا شکاریا تو اس کے سامنے ہی نہ ہو اور اگر سامنے بھی ہو تو وہ کسی جھاڑی وغیرہ میں چھپا ہوا ہو ٗ تو بتائیے وہ شیر کون سے شکار کو کھانے میں پہل کرے گا؟یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ جھاڑی میں چھپے ہوئے شکار کی طرف پہلے متوجہ ہواور کھلے اور واضح شکار کو نظر انداز کر دے!   بعینہ ایک ایسی عورت کہ جس کا حسن سر سے پائوں تک ظاہر اور نمایاں ہے ٗ بمقابلہ اس عورت کے کہ جس کا حسن سر تاپامستور ہے ٗ مردوں کے لئے بہتر اور سہل’’شکار‘‘ ثابت ہو سکتی ہے۔لڑکا اسی لڑکا کا پیچھا کرے گا کہ جس کے حسن وجمال کی گواہی اس کی آنکھیں اور اس کا دل پہلے ہی دے چکے ہیں۔ وہ ایسی لڑکی کے تعاقب کو حماقت اور تضیع الوقت سمجھے گا کہ جس کے حسن وجمال کا اسے فی الحال کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔

مغرب کی عورت تو مکمل طور پر بے حجاب ہو چکی ہے ٗ تو کیا مردوں کے ہاتھوں اس کی عزت وعصمت محفوظ ہو چکی ہے کیا وہ اپنے آپ کو عفت مآب تصور کرتی ہے کیا یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات رہ گئی ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ناجائز بچے انہی مغرب کی آزاد اور قلیل اللباس عورتوں کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں۔

معترضین کو ایک اور ضروری بات نہیں بھولنی چاہئے اور وہ یہ کہ چھپنا خود عورت کی فطرت یا نفسیات میں شامل ہے قدرت نے حیا اس کی سرشت میں شامل کر دی ہے اگر چہ غلط ماحول نے عورت کی اس نفسیات کو وقتی طور پر متاثر کیا ہے تاہم وہ اب بھی وقتاً فوقتاً اپنی اس دبی ہوئی نفسیات کا برملا اظہار کرتی رہتی ہے۔مثلاً حال ہی میں جب خواتین کو حسینہ عالم کے انتخاب کے سلسلے میں منصفین کے سامنے تیراکی کے کپڑوں میں آنے کے لئے کہا گیا تو ان سب نے ایسا کرنے سے بیک آواز انکار کر دیا (عربی فارسی اور اُردو زبانوں میں عورت کے لئے جتنے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان سب کے لغوی معنی چھپنے یا پوشیدہ رہنے کے ہیں) اللہ تعالیٰ نے سورئہ واقعہ (۱۵۔۲۰۶) میں جن بڑی بڑی آنکھوں والی گوری حوروں کا ذکر فرمایا ہے ان کے لئے بھی المسنون کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یعنی محفوظ رکھے ہوئے آبدار موتی

صفحہ نمبر۱۹۱:

حضرت عمر   کا قول ہے:

’’عورت پوشیدہ رکھی جانے والی مخلوق ہے لہٰذا تم اس کو گھروں میں چھپائو۔‘‘(عیوان الاخبار  جلد ۴ ص ۷

علامہ اقبالؒ کاقول ہے کہ عورت کا جنسی تقدس اس امر کا متقاضی ہے کہ اسے اجنبی نگاہوں سے ہر طرح محفوظ رکھا جائے عورت ایک بہت ہی عظیم ذریعہ تخلیق ہے اور یہ حقیقت ہے کہ دُنیا کی تخلیقی قوتین مستورو محجوب ہیں علامہ اقبالؒ کے دو مشہور اشعار ہیں:

عزت ہے محبت کی قائم  اے قیس حجاب محمل سے

محمل   جو    گیا   عزت    بھی   گئی   لیلیٰ   بھی    گئی

نیز فرمایا

آغوشِ صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے

و ہ   قطرہ    نیساں   کبھی   بنتا   نہیں     گوہر

امام غزالی  ؒ کا مشہور قول ہے۔ عورت کو ضعف اور ستر سے پیدا کیا ہے ضعف کا علاج خاموشی اور ستر کا علاج پردہ میں رکھنا ہے۔

صفحہ نمبر۲۰۹تا۲۱۷:

چہرے کی بے پردگی سے عورتوں اور مردوں کا اختلاط عمل میں آتا ہے۔ جب عورت دیکھتی ہے کہ وہ بھی مردوں کی طرح چہرہ کھول کر بے پردہ گھوم پھر سکتی ہے تو آہستہ آہستہ اسے مردوں سے کھلم کھلا دھکم پیل کرنے میں بھی شرم وحیاء محسوس نہیں ہوتی اور اس طرح کے میل جول میں بہت بڑا فتنہ اور وسیع فساد مضمر ہے۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ مسجد سے باہر تشریف لائے تو عورتوں کو مردوں کے ساتھ راستے پر چلتے ہوئے دیکھا تو عورتوں سے ارشاد فرمایا

استاجرن      فإنہ لیس لکن أن تحققن الطریق علیکن بحافات الطریق۔(سنن ابی دائود ٗ باب فی مشی النساء مع الرجال

’’ایک طرف ہٹ جائو۔ راستے کے درمیان چلنا تمہارا حق نہیں ہے۔ ایک طرف ہو کر چلا کرو۔‘‘

رسول اکرم  ﷺ کے اس فرمان کے بعد خواتین راستے کے ایک طرف ہو کر اس طرح چلتیں کہ بسا اوقات ان کی چادریں دیوار کو چھورہی ہوتیں۔ اس حدیث کو ابن کثیر نے

وقل للمومنت        یغضضن من ابصارھن کی تفسیر کرتے ہوئے ذکر کیا ہے۔

بے پردہ گھومنے کی سزا:

جے پور (انڈیا) پول بازار میں ایک عورت جس نے دو چوٹیاں بنا رکھی تھی ٗ ہاتھ میں مولیاں لئے ہوئے جارہی تھی۔ پیچھے سے ایک آوارہ گائے نے مولیوں پر اپنا منہ مارا ٗ جس سے عورت کی دو چوٹیاں بھی مولیوں کے ساتھ ہی منہ میں آگئیں۔ گائے بھاگ کھڑی ہوئی۔ نتیجے کے طور پر عورت بھی گائے کے ساتھ گھسٹتے ہوئے گئی۔ راہ چلتے لوگوں کی امداد سے ان چوٹیوں کو گائے کے منہ سے آزاد کرایا گیا۔   (جنگ راولپنڈی ماہ طیبہ نومبر۱۹۶۰ء

گائے اگر بازار میں پھرتی ہوئی آوارہ کہلائی تو دو چوٹیوں کی بازار میں نمائش کرنے والی کیا ہوئی؟ یہ تو آوارہ پر آوارہ کا حملہ ہے۔گائے کو اگر آوارگی سے بچنے کے لئے اپنی کھونٹی پر ٹکنا ضروری ہے تو عورت کو بھی اپنے گھر قرار پکڑنا ضروری ہے۔ مولیوں کو دیکھئے ٗ کھیت سے نکل کر بازار میں آئیں تو بکنے لگیں۔ یونہی جو چوٹیاں بازار میں آئیں وہ بھی مولیاں ہی ہیں اور گائے کی یہ غلط فہمی نہیں بلکہ اس کی نظر میں یہ بھی مولیاں ہی تھیں۔ہر عورت کو اس واقعے سے عبرت حاصل کرنی چاہئے کہ چوٹیاں مولیوں کی طرح بازار میں آئیں تو گائے کے منہ میں گئیں۔ اسی طرح جو عورت آوارہ عورتوں کی طرح بازار میں نکلے گی وہ بھی کسی وقت کسی تہذیب نو کے بھیڑئیے کے منہ کا لقمہ بن سکتی ہے

صفحہ نمبر۲۶۸۔۲۶۹:

سب سے پہلا خطر ناک نتیجہ تو یہ بر آمد ہوا کہ زندگی کے ہر گوشے میں مرد اور عورت کے بے باکانہ اور آزادانہ اختلاط نے پورے معاشرے میں جنسی آوارگی کا رجحان پیدا کر دیا۔ فحاشی اور بدکاری کا عام چلن ہو گیا اور عورت کی اس آزادی کے بطن سے ایسی ننگی اور بے حیا تہذیب نے جنم لیا کہ اس کی عفونت اور سرانڈ سے شرم وحیا ء کا دم گھٹنے لگا اور اخلاق کا پھلتا پھولتا چمن اجڑ گیا۔

عورت جب گھر کی چار دیواری سے نکل کر مجلسوں اور محفلوں کی زینت بنی تو جنسی آوارگی اس طرح پھیلی کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جو گندگی اور عفونت گھر کے بند کمروں میں بھی برداشت نہیں کی جا سکتی تھی وہ بازاروں اور سڑکوں پر سرعام پھیلنے لگی۔انتہائی قابل احترام رشتے بھی اس گندگی سے محفوظ نہ رہ سکے اور پھر جنسیات اور اخلاقی اوارگی کی ایسی ایسی داستانیں لوگوں میں پھیلنے ل

گیں جن کو سن کر آدمی شرم سے پانی پانی ہو جائے۔ بیوائوں اور رنڈیوں کا نام آرٹسٹ رکھ دیا گیا تاکہ ضمیر کا وہ کانٹا جو برے نام پر اندرونی خلش پیدا کرتا ہے ٗ اس کو بھی نکال دِیا جائے۔

آرٹ اور کلچر کے نام سے جنسی جذبات کی ترجمانی ہونے لگی۔ عریاں تصاویر کھنچی جانے لگیں اور وہ سربازار بکنے لگیں تاکہ ان سے لوگوں کے جنسی جذبات کی تسکین ہو سکے۔ رقص وموسیقی کے نام پر عورت سے لذت حاصل کی گئی۔ افسانوں ٗ ڈراموں ٗ شاعری اور ادب کے ذریعے جنسی اعمال و کیفیات کی تشریح ہونے لگی۔ اور عورت کا مقصد صرف اور صرف یہ رہ گیا کہ وہ مرد کے جنسی جذبات کی تکمیل اور تسکین کرے۔ غرض یہ کہ عورت مرد کے ہاتھ میں کھلونا بن کر رہ گئی اور اب وہ واپس گھر کی چارداری میں جانے کے قابل نہ رہی۔

اس بے قید آزادی کا دوسرا گھنائونا نتیجہ یہ نکلا کہ خاندانی نظام تلپٹ ہو کر رہ گیا۔ خاندانی نظام عورت کی وجہ سے قائم تھا اور وہی اس کے نظم ونسق کو سنبھال رہی تھی لیکن جب وہ گھر سے باہر کارخانوں ٗ دفتروں اور دوسرے اداروں میں کام کرنے کے لئے گئی تو اس کی زندگی کی ساری تگ ودوگھر سے باہر ہونے لگی۔ بیرونی مصروفیات سے اس کا گھر عدم تو جہی کا شکار ہو کر برباد ہو گیا۔خاندان معاشرے کا بنیادی پتھر ہوتا ہے ۔ اس کی بربادی پورے سماج کی بربادی ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہو اکہ پورا معاشرہ درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ عورت اور مرد کے درمیان محبت کا رشتہ ختم ہو گیا۔ والدین اور اولاد کی محبت کا رشتہ کمزور پڑ گیا۔ اولاد سے والدین کی محبت کا مرکز چھن گیا اور والدین نرسنگ ہائوسز کے حوالے ہو گئے ۔ والدین سے بڑھاپے کا سہارا چھن گیا۔

غرض یہ کہ وہ سارے رشتے اور تعلقات جو خاندان کی بقا اور مضبوطی کا باعث ہوتے ہیں ٗ ایک ایک کرکے ٹوٹ گئے اور انسان اس سکون سے یک قلم محروم ہو گیا جو ایک خاندان ہی اسے فراہم کر سکتا ہے۔

صفحہ نمبر۲۷۳:

فرانس کے مشہور اور معروف ڈاکٹر مسٹر آئل اپنی مشہور کتاب ’’یورپ اور آزادی‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں

’’عورت کا مرتبہ تو یہ تھا کہ اس کو گھر کے تمام کام اور ضروریات سپر دکر دی جاتیں اور وہ بال بچوں کی بہترین طریقے برداشت و پرداخت کرتی چہ جائے کہ یورپ آج اس سے ملکی اور فوجی کام لے رہا ہے اور ان کو فوج و پولیس میں بھرتی کرکے اپنی روشن ضمیری اور بلند حوصلگی کا ثبوت دے رہا ہے۔حالانکہ میرے نزدیک اور تمام ان حضرات کے نزدیک جو اس معاملے میں کافی تجربہ رکھتے ہیں۔ یورپ کی یہ بلند حوصلگی اور روشن ضمیری نہیں بلکہ انتہائی تاریک دلی اور کوتاہ بینی ہے کیونکہ آئے دن کے تجربات ہم کو بتا رہے ہیں کہ عورت کو اس قدر آزاد چھوڑنا کسی طرح بھی سودمند نہیں بلکہ سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔‘‘

صفحہ نمبر۲۸۰:

چودہ سو سال پہلے حضور  ﷺ نے متنبہ فرما دیا تھا کہ:

’’جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانکتا ہے ۔ عورت کا اپنے گھر کی کوٹھری میں رہنا رحمت الٰہیہ سے قرب کا باعث ہے۔‘‘   (ابن کثیر

صفحہ نمبر۲۹۳:

قرآن نے تو معزز گھرانے کی عورتوں کو علامت یہ بتائی ہے کہ وہ گھر سے باہر بغیر کسی شدید ضرورت کے نہیں نکلتیں اور اگر نکلنا پڑے تو پورے پردے اور شرم و حیا کے ساتھ نکلتی ہیں تاکہ کوئی شیطان صفت انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر ذلیل ورسوانہ کر سکے۔

 

صفحہ نمبر۳۰۳ تا ۳۱۵:

اس سلسلے میں ٹی وی ٗ وی سی آر ٗ ڈش اور سینما وغیرہ سے اپنے گھر والوں کو بچانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں عورتوں کو آزادی کی ایسی راہیں دکھائی جاتی ہیں جن کا انجام بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ گھروں سے نکلیں ٗ ڈرنے اور گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دفتروں میں اور محفلوں میں مردوں کے شانہ بشانہ ہر کام کریں۔ ان سے گپیں ہانکیں ٗ دوستیاں کریں ٗ کوئی ڈر کی بات نہیں۔ اس سے آپ میں اعتماد پیدا ہوگا۔ زندگی کو جرأت سے گزارنے کا حوصلہ ملے گا۔ یہ آپ کا حق ہے ٗ آگے بڑھیں اور یہ حق حاصل کریں۔نئی نسل کو یہ راہ بڑی خوبصورت بنا کر دکھائی جاتی ہے۔ اس کا انجام بڑا خوشگوار دکھایا جاتا ہے۔ نئی نسل اسے حقیقی دُنیا سمجھ کر دیوانہ وار ان راہوں پر چل کھڑی ہوتی ہے ٗ لیکن جب ان راہوں کے قریب جاتے ہیں تووہ سب کچھ سراب ہوتا ہے۔

پردہ اور یہود ونصاریٰ کی سازشیں:

صہیونیت اور استعمارو سامراجیوں اور مادیت اور اباحت پسندوں کے پروگراموں کا سب سے بڑا

اور اولین مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان معاشرے کو بگاڑ دیا جائے اور اس کی حیثیت کو ختم کرکے اسے ٹکڑے ٹکڑے اور پراگندہ کر دیا جائے ٗ جس کا طریقہ یہ ہے کہ اخلاقی اقدار کو ختم کر دیا جائے اورنوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے دِلوں میں دینی مفاہیم و مذہب کی عظمت ختم کر دی جائے اور مسلم معاشرے میں ہر اعتبار اور ہر پہلو سے آزادی ٗ بے راہ روی اور برائیوں کو پھیلا دیا جائے۔

اباجیت و آزادی کی اس دعوت کو عام کرنے اور مکروفریب کا جال پھیلانے کے لئے ان لوگوں کے یہاں عورت سب سے کار آمد اسلحہ اور اولین مقصد اور ہدف ہے۔ اس لئے کہ اباجیت کی دعوت کو عام کرنے اور سا مراج کا پروگرام نافذ کرنے کے لئے عورت ہی سب سے ضعیف و کمزور اور جذباتی عنصر ہے جو ان کے مقاصد کے حصول کا بہترین ذریعہ بنتی ہے۔

سامراجیوں کا ایک پوپ کہتا ہے

شراب کا جام اور حسین وجمیل دو شیزہ امت محمدیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں وہ اثر رکھتی ہے جو ہزار توپیں نہیں رکھتیں۔ لہٰذا اس امت محمد یہ کو مادے اور جنس و شہوت کی محبت میں غرق کرڈالو۔

بدنام زمانہ فری میسن تنظیم کے لیڈروں میں سے ایک لیڈر کہتا ہے

عورت کو اعتماد میں لینا ہمارا فریضہ ہے۔ اس لئے کہ جس دن بھی اس نے اپنا ہاتھ ہماری طرف بڑھا دیا ٗ اسی دن ہم حرام تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور دین کی فتح وکامیابی کے لئے کوشش کرنے والوں کا لشکر تتربتر ہو جائے گا۔

صہیونی حکماء کے پروٹوکول میں یہ لکھا ہے کہ

یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم اس بات کی کوشش کریں کہ ہر جگہ اخلاقی حالت دگرگوں ہو جائے تاکہ ہر جگہ ہم غلبہ حاصل کر سکیں۔ ’’فرائڈ‘‘ ہماری جماعت کا آدمی ہے اور وہ کھلم کھلا جنسی تعلقات کے مناظر پیش کرتا ر ہے گا تاکہ نوجوانوں کی نظر میں کوئی چیز بھی مقدس نہ رہے اور ان کا سب سے بڑا مقصد اپنی جنسی خواہشات کی تسکین بن جائے اور اس صورت میں ان کے اخلاق کا جنا زہ نکل چکا ہوگا۔

لہٰذا جو لوگ اِسلامی ملکوں میں مردوز ن کے اختلاط کے دعویدار ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ یہ اختلاط ہماری معاشرتی زندگی کے ہر شعبے میں عام ہو جائے ٗ یہی لوگ درحقیقت اسلام کے دشمن ٗمادی  الحادی اور ا باجیت پسند مذاہب والوں کی سازشوں کو نافذ کرنے کا ذریعہ اور ان کے لئے پروپیگنڈہ کرنے کا آلہ بن رہے ہیں اور یہ لوگ سا  مراجی اور صہیونی اور ماسونی (فری میسن) کے افکار کی دعوت دینے والوں کا فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ خواہ اس بات کو یہ لوگ سمجھ رہے ہوں یا نہ سمجھیں اور خواہ انہیں یہ حقیقت محسوس ہو رہی ہو یا محسوس نہ ہو رہی ہو۔

اسلام کے خلاف ایک منظم سازش کے ذریعے اس بے حیائی کو عام کِیا جارہا ہے۔ یہود ونصاریٰ کی اسلام دُشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ان دونوں دشمنوں کی طرف سے اسلام کو مٹانے یا کم از کم بدنام کرنے کی کوشش ہر دَور میں ہوتی رہی ہے اور بدقسمتی سے ہمارے اس ملک پر ابتداء ہی سے اس طبقے کا قبضہ رہا جن کی پرورش اہل مغرب کی گود میں ہوتی تھی ٗ جن کی آنکھ بھی اس حیا باختہ ماحول میں کھلی تھی ٗ جن کی تربیت امریکہ اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں ہوئی تھی ٗ جن کے دِلوں میں نہ اللہ کی کوئی عظمت تھی نہ اس کے رسول  ﷺ سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی اس کے دین سے واقف تھے ٗ جو بجائے اللہ کے اہل مغرب پر ایمان رکھتے تھے اور جو مکہ و مدینہ کی بجائے لندن و پیرس کی تاریخ سے واقفیت رکھتے تھے ٗ جن کو مسجد کے بجائے نائٹ کلبوں سے محبت تھی ٗ اسلامی تعلیم کی جگہ مخلوط نظام تعلیم کو جانتے تھے ٗ جن کو ذکر اللہ کے بجائے شراب و شباب کی محفلوں میں قلبی سکون کا زعم تھا ٗ بیت اللہ کی جگہ واشنگٹن اور لندن کو قبلہ و کعبہ سمجھتے تھے ٗ قرآن پاک کی جگہ ڈائجسٹوں کے شوقین تھے ٗ جو اپنی بہن بیٹی کو بھی پردے کی قیود سے آزاد اور عیاں دیکھنا پسند کرتے تھے۔

جب یہ طبقہ برسراقتدار آیا تو سب سے پہلے اس مغرب زدہ طبقے نے مغربی تہذیب و تمدن کو اس ملک پر مسلط کیا اور اس کے لئے مختلف ادارے وجود میں آئے اور ان اداروں نے اہل مغرب کے اشاروں پر اپنے مشن کا  آغاز کیا اور مخطوط نظام تعلیم رائج کرکے شرم وحیا کی پہلی دیوار مسمار کر دی۔اس سلسلے میں ملک کے پہلے وزیراعظم کی بیوی بیگم لیاقت علی خان نے ۲۳ اپریل ۱۹۴۹ ء کو لندن میں غیر ملکی اخبار نویس عورتوں کے سامنے اپنے مغربی آقائوں کے مشن کو شروع کرتے ہوئے کہا تھا

اگرچہ پاکستان کی شہری عورتیں پردہ بھی کرتی ہیں اور نقاب بھی اوڑھتی ہیں ٗ تاہم اسی فیصد عورتیں جو دیہات میں رہتی ہیں وہ ایسا نہیں کرتیں۔ نیز پردہ نشین عورتیں بھی اپنے مردوں پرویسی ہی اور اپنے گھر کے معاملات میں ویسی ہی بااختیار ہیں جیسے کہ بے پردہ عورتیں۔ مغرب میں بھی تو عورتوں کے مردانہ کارروائیوں اور مصروفیتوں میں حصہ لینے کا خیال ابھی نیا نیا پید اہوا ہے۔ بہر حال پردہ دیر سویر ختم ہوکے رہے گا۔ لڑکیوں کی نئی پودجن کی تربیت لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط درسگاہوں میں ہو رہی ہے وہ پردے میں نہیں جائے گی۔ (ڈیلی سول اینڈ ملٹری گزٹ ٗ مورخہ ۲۷۔۴۔۱۹۴۹ء

بیگم صاحبہ نے مغرب والوں سے کہا تھا کہ کچھ پردہ نشین عورتیں جو ہمارے مُلک میں تمہیں نظر آرہی ہیں عنقریب ہماری کوششیں رنگ لائیں گی اور یہ پردہ نشین عورتیں پھر تمہاری طرح لباس سے بے نیاز ہو کر گھومیں پھریں گی۔اتنی جلدی تو پردہ ختم نہیں ہو سکتا ٗ ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے۔ ہمیں اختیارات ملے ابھی دو سال ہی تو گزرے ہیں اور تمہارے ہاں مغرب میں بھی تو ابھی تک کوئی خاص قسم کی بے حیائی نظر نہیں آتی جس پر تم ہمیں ڈانٹتے ہو۔ بیج تو ہم نے ابھی ڈالا ہے ٗ مخلوط تعلیم کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور جو لڑکیاں ان درسگاہوں سے تربیت پا کر نکلیں گی وہ کبھی بھی پردے کا بوجھ اپنے سر پر نہیں اُٹھائیں گی۔ وہ تمہاری طرح مادر پدر آزاد ہو کر اسلام کا مذاق اڑائیں گی۔جس معاشرے کو وہ وجود میں لانا چاہتے تھے بدقسمتی سے ہمارے موجودہ دَور میں ان کا مدعا پورا ہو گیا

جس میں کچھ انسان کی توقیر کے احکام تھے

وہ شریعت مغرب زدوں کے زیر سایہ ہوگئی

بے حیائی کا سیلاب ہے ٗ جس سے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کتنے شریف گھرانوں کی بہو بیٹیاں آج بے حجابانہ نیم برہنہ ہو کر پارکوں ٗ ہوٹلوں ٗ سیر گاہوں اور دفتروں میں نامحرم مردوں کے شانہ بشانہ نظر آرہی ہیں۔

سامراجی طاقتوں کا فتنہ و فساد:

استاذ حسین یوسف نے ایک رسالہ تحریر کیا ہے ٗ جس کا نام ’’مشرق میں نسوانی تحریک اور سامراج سے ان کے روابط‘‘ ہے۔ اس کتاب میں روشن دلائل اور دوٹوک تحقیقات سے صاحب موصوف نے یہ ثابت کیا ہے کہ سامراجی طاقتوں نے بے شمار نسوانی انجمنوں کو خرید رکھا ہے اور ان کی زبردست مالی امداد کرتی ہیں۔

صلیبی سامراج اور صہیونی مصنف کا کہنا ہے

عورتوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہونی چاہئے جو اسلام سے قطعاًنا واقف ہو! طریقہ اس کا بھی وہی ہے جو پہلے مردوں پرآزمایا جا چکا ہے۔ یعنی تعلیم

پردہ اور صیہونی اور صلیبی سازش:

عالم اسلام کی موجودہ نسل، صلیبی سامراج اور یہودی سازش کا اصل سرمایہ ہے۔ کیونکہ یہی نسل اسلامی عقیدے کے خاتمے کے لئے فیصلہ کن وار کرنے والی ہے۔ اور خاص طور پر موجودہ عالم اسلام کی خاتون جس کے بارے میں ایک یہودی مصنف کہتا ہے کہ

’’معاشرے کو بے دین بنانے میں عورت زیادہ موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔‘‘

اور یہ بات صحیح بھی ہے ۔ کیونکہ آج کی ’’تعلیم یافتہ حریت پسند خاتون‘‘ اپنے بچوں کے دل میں اسلام کے بیج نہیں بوئے گی۔ کیونکہ اس عقیدہ پر وہ خود ایمان نہیں رکھتی اور اسلام سے وہ متنفر ہے۔اب صلیبی سا مراج اور صہیونی سازشی دو صدیوں کی مسلسل جدوجہد سے چھٹکارا پا جائیں گے کیونکہ اب عورت تعلیم یافتہ اور حریت پسند ہونے کی بناء پر مسلمان بچے ہی نہیں پیدا کرے گی پھر بھی عورت پر گرفت مضبوط ہے اور اس کے دل میں اسلام دُشمنی کے جذبات ابھارنے کا کام منظم طریقے پر جاری ہے۔

اس مقصد کے لئے حریت پسند خاتون کو حصول حقوق کی اُلجھن میں مبتلا کر دِیا گیا ہے اور یہ اُلجھن اس وقت تک دُور نہیں ہو سکتی ہے جب تک اِسلامی قوانین کا خاتمہ نہ کر دیا جائے۔ یا اس سے بھی خطر ناک مہم کہ اسلام کے مفہوم و معنی کو بدل دیا جائے!

وہ گندگی میں پڑا رہے اور ان کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ اس لاپرواہی سے گذشتہ اقوام کِس انجام کو پہنچیں اور آج بعض قومیں کس انجام سے دو چار ہیں۔ اسے ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ دُنیا کی تخریب پسند قومیں ان کے اخلاق کی بربادی اور ان کے دین اور ایمان کی تباہی کا ایک بڑا پروگرام اپنے سامنے رکھتی ہیں اور پروگرام کی منظوری صلیبی اور صہیونی دُنیا سے مل چکی ہے اور اب یہ نوجوان نسل، شہوت رانی اور لذت پرستی میں اتنی منہمک ہو چکی ہے کہ وہ اب صحیح زندگی کی طرف نہیں آسکتے۔ چنانچہ یہ بھی اسلام کو ناپسند کرتے ہیں۔

عیسائی مشنریوں کے دو مقاصد اور ہدف

موجودہ دَور کی کی آزاد عورت تو خاص طور پر اسلام کو ناپسند کرتی ہے۔ عالم اسلام میں آزادی نسواں ایک اہم مسئلہ رہا ہے جس کے لئے صلیبی سا مراج اور صیہونی سازش نے پوری ایک صدی تک جدوجہد کی ہے۔’’عالم اسلام پرحملہ‘‘ نامی کتاب میں ہے کہ مشنری کوششوں کے دو مقاصد ہیں ایک نوجوانوں کو عیسائی بنانا اور دوسرے تمام مسلمانوں میں مسیحی افکار کی اشاعت۔اسی کتاب کے صفحہ ۴۷ پر ہے۔

مشنری اگر اپنی تحریکات کے آثار کمزور دیکھیں تو اس سے ناامید نہ ہوں کیونکہ کہ یہ بات بالکل سامنے آچکی ہے کہ مسلمانوں کو مغربی علوم اور آزادی نسواں کی چاٹ پڑ چکی ہے۔

صفحہ ۸۸ اور ۸۹ پر لکھنؤ اور قاہرہ کی مشنری کا نفرنسوں کے طے کردہ لائحہ عمل ہے لکھنؤ کانفرنس جو ۱۹۱۱ء میں ہوئی اس میں یہ دو نکاتی لائحہ عمل منظور ہُوا۔

(۱)

موجودہ حالات کا مطالعہ۔

(۲)

تعلیم نسواں۔ اور مشنریوں کی تعلیم کے لئے کوشش۔

قاہرہ کانفرنس (۱۹۰۶ئ) نے جو پروگرام منظور کیا۔ اس کا ایک نکتہ درج ذیل ہے:۔

مسلم خواتین میں اجتماعی اور نفسیاتی ارتقاء

یہ وہ طریقہ کار تھا جو مسلم خواتین کی آزادی کے لئے مشنری کانفرنس میں طے پایا  اور صلیبی مشنریوں نے اس مقصد کے لئے انتھک کوششیں کیں۔

ایک امریکی یہودی مور برجراپنی کتاب آج کی عربی دُنیا میں کہتا ہے ۔

تعلیم یافتہ مسلمان عورت مذہبی تعلیمات سے بہت دُور ہے ا ور معاشرے کو بے دین بنانے میں حد درجہ مفید ہے۔

جو مقصد اس یہودی مصنف نے بتایا ہے اس کے لئے ظاہرہے کہ مشنری بہت زیادہ  کوشش کریں گے کیونکہ اگر عورت مسلمان رہ جائے تو خواہ جاہل ہی کیوں نہ ہو وہ بہر حال معاشرے کو بے دین بنانے کی مہم میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو گی عورت ہی تو بچے کی پرورش کرتی ہے۔اور مسلمان عورت تو خواہ جاہل ہی کیوں نہ ہو دوران تربیت بچوں میں اسلام کے ایسے بیج بو دیتی ہے کہ خواہ فساد اور بگاڑ کے عوامل کتنے ہی مؤثر کیوں نہ ہوں اور لوگوں کی بر بادی دین و ایمان کے کتنے ہی منظم پروگرام کیوں نہ ہوں مسلمانوں میں پھر بھی اسلام کا کوئی نہ کوئی شائبہ باقی رہ جاتا ہے اور خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں پکا سچا مسلمان نہ بن جائے اور اس خطرے کو راستے سے ہٹانا صلیبی سا مراج اور یہودی سازش کے لئے ضروری ہے اس لئے اُنہوں نے سوچا کہ مسلمان عورت کے دِل سے اِسلامی عقیدہ مٹنا چاہئے۔

یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم نے اپنی ساری قوتوں کو فجور کے تابع کر دیا ہے۔ ہم ثقافت اور تہذیب کے نام پروہ سب کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں جس کی جھلک ہمیں مغربی معاشرے میں دکھائی دیتی ہے۔ مغربی تہذیب کا سارا چکر ایک عریاں یا نیم عریاں عورت کے گرد گھوم رہا ہے اور ہم بھی کوے کی طرح اسی چال پر چلنا چاہتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ اپنی اڑان بھول جانا ہے۔

میڈیا کی کوئی بھی سرگرمی ہو ٗ عورت کی تشہیر کے بغیر نامکمل نظر آتی ہے ۔ کوئی ایسا معمولی سا موقع بھی خالی نہیں جانے دِیا جاتا ٗ جس میں عورت کو ایک شوپیس بنا کر پیش نہ کِیا گیا ہو۔ ملک کے طول و عرض کو دیکھ لیں ٗ سائن بورڈ ٗ اخبارات ٗ سینماہال ٗ بک اسٹال ٗ غرض یہ کہ وہ کونسی چیزہے اور وہ کونسی جگہ ہے جہاں ہم نے اپنے کاروبار اور اپنی مضوعات بیچنے کے لئے عورت کو سیڑھی نہیں بنایا۔ تھرپار کرکے وہ پسماندہ علاقے جہاں پانی تک میسر نہیں ٗ وہاں بھی سائن بورڈ پر عورت مشروب کے لئے اشتہار بنی ہوئی ہے

میڈیا کی ساری چمک دمک ایک نیم برہنہ اور بے پردہ عورت کے گرد گھوم رہی ہے۔ میں اکثر احباب سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر میڈیا سے عورت کو خارج کر دیا جائے تو کیا اس سے میڈیا ختم ہو جائے گا یا اس کی افادیت گھٹ جائے گی یا کوئی مضائقہ نہیں ہوگا تو اکثر کا یہی جواب ہوتا ہے کہ پھر یہ ٹی وی ٗ یہ انٹرنیٹ اور یہ سینما گھر کون دیکھے گا؟ ٹی وی کوٹی وی رہنے دوا سے مولوی نہ بنائو۔

یہودوہنود یہ جانتے ہیں کہ ہمارے دین کی بنیاد حیا پر رکھی گئی ہے اور اس میں عورت کی بے پردگی ٗ بے حیائی اور فحاشی پر سخت وعیدیں آتی ہیں ٗ اس لئے وہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں ٗ ہمارے درمیان فحاشی اور بے حیائی پھیلا کر ہمیں اللہ کے دین سے دھیرے دھیرے دُور کر رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ٗ مسلمانوں کے خلاف عورت کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی روایت چودہ سو سال پُرانی ہے۔

جب آپ  ﷺ نے اللہ کے دین کی تبلیغ شروع کی تو قریش نے آپ  ﷺ کو تین لالچ دئیے تھے۔ قریش کی سرداری ٗ اعلیٰ خاندان کی حسین عورت سے نکاح اور بے حساب مال وزر ٗ جنہیں آپ  ﷺ نے رد فرما دِیا تھا۔

پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دَور خلافت میں مصر کے کمانڈر نے ان کی طرف ایک قاصد روانہ کیا کہ یہاں کے کفار نے ایک گہری سازش کی ہے ٗ ہمارے مجاہدوں کو بہکانے کے لئے جگہ جگہ اپنی حسین اور خوبصورت عورتوں کو ڈھول اور تاشے دے کر نیم برہنہ حالت میں کھڑا کر دیا ہے جو انہیں دعوت گناہ دیتی ہیں ٗ میں پریشان ہوں ٗ میری رہنمائی فرمائیں۔‘‘

عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قاصد روانہ کیا اور پیغام بھیجا کہ اپنے تمام سپاہیوں کو اکٹھا کرکے انہیں قرآن سنائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ قرآن کی برکت سے مسلمان سپاہیوں نے ان عورتوں کی طرف آنکھ اُتا کر بھی نہیں دیکھا ٗ آخر ان عورتوں نے مسلمان سپاہیوں سے پوچھا کہ کیا ہم خوبصورت نہیں ہیں ٗ ہم میں کیا کمی ہے جو تم ہماری طرف راغب نہیں ہوتے ہو تو سپاہیوں نے  کہا کہ ہمارے رب کا حکم ہے۔ ’

آپ حکم دیجئے مومنوں کو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ٗان کے لئے یہ بہت پاکیزہ طریقہ ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ان کاموں سے خوب آگاہ ہیں ٗ جو وہ کرتے ہیں۔‘‘ (نور ۳۰

ہمیں آج پھر اپنے ذرائع ابلاغ کی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ کہیں آج پھر ہم اسی کفر یہ سازش کا شکار تو نہیں ہو رہے؟ آج بھی یہود و ہنود ایک گہری سازش کے تحت مسلمانوں کے افکار پراگندہ کرنے کے لئے مخرب اخلاق ویڈیو ز ٗ سی ڈیز اور لٹریچر کا زہر ہمارے معاشرے میں پھیلا رہے ہیں۔ بے حیائی اس قدر عروج پر ہے کہ اب آپ انٹرنیٹ کے ذریعے اخلاق باختہ فلمیں گھروں میں ڈائون لوڈ کر سکتے ہیں اور جب کوئی اللہ کا بندہ آرزہ دل ہو کر اس پر تنقید کرتا ہے تو اسے مولوی کہہ کر چپ کرا دیا جاتا ہے۔

آج مسلمانوں کو اسی فحاشی و بے حیائی میں ترقی نظر آرہی ہے ٗ وہ کہتے ہیں کہ انگریزوں او رمغرب کے لوگوں نے اتنی ترقی کی ہے ٗ مولوی نے ہمیں کیادیا ہے ؟ آج یورپی معاشرہ جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور ان کی تہذیب کا طلسماتی مینار جس طرح زمین بو س ہو رہا ہے اس کے پیچھے کار فرما عوامل میں بے حیائی ٗ فحاشی اور عورت کا مادر پدر آزاد ہونا ایک اہم عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔

صفحہ نمبر۳۹۹ تا ۴۰۵:

عورت کے لئے باہر نکلنے کی شرطیں

پہلی شرط:   جسم کو ڈھانپ کر نکلیں

دوسری شرط:   ڈھیلا ڈھالا لباس پہن کر نکلیں

تیسری شرط:   نگاہ نیچی کرتے ہوئے نکلیں

چوتھی شرط:   عورت اکیلی سفر نہ کرے

پانچویں شرط:   راستے میں کنارے پر چلیں

چھٹی شرط:   اپنی عصمت کی حفاظت کریں

ساتویں شرط:   ایسے چلیں کہ پائوں کی آواز سے لوگ متوجہ نہ ہوں

آٹھویں شرط:   بن ٹھن کر نہ نکلیں

نویں شرط:   خوشبو لگا کر باہر نہ نکلیں

دسویں شرط:  غیروں اور مردوں کی مشابہت اختیار نہ کریں

صفحہ نمبر۴۰۶:

بے پردگی اور بے حیائی کے نتائج:

آج کل بے پردگی کی زہریلی ہوا چل رہی ہے۔ بڑی خطرناک چیز کی طرف مخلوق جا رہی ہے۔ اس کے نتائج نہایت ہی خراب نکلیں گے۔ بے حیائی کا بازار تو پہلے ہی کھلا ہوا تھا ٗ اب بے با کی بھی شروع ہو گئی

اور غضب یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے اس پر استدلال کرتے ہیں جو سراسر دین کی تحریف ہے۔ یہ سب بے حیائی کے کرشمے ہیں۔

بڑے ہی فسق و فجور اور الحاد کا زمانہ ہے۔ چہار طرف سے دین پر حملے ہو رہے ہیں۔ ہر شخص الا ماشاء اللہ نفسانیت پر اُترا ہوا ہے۔ جانوروں کی طرح آزاد ہیں۔ اگر حکومت اِسلامی ہوتی اور بادشاہ عادل اور دیندار ہوتا تو پتہ چل جاتا کہ ایسی باتیں کیسے کیا کرتے ہیں؟

اب خود اہل حکومت ہی کا یہ مذاق ہے جس سے ہر قسم کی بے حیائیوں کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ اگر حدود شرعیہ جا ری ہوتیں تو ان جرائم کی کسی کو ہمت بھی نہ ہوتی۔ چوری پر قطع ید ہوتا۔ زنا پر رجم ہوتا ٗ پھر اس کی کیا ہمت ہو سکتی تھی۔ اور اب کیا ہے ٗ بے مہار ہیں۔ جو چاہیں کریں۔ کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں۔ معائب محاسن ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا سے خیر وبرکت رخصت ہو گئی ہے۔ آئے دن ارضی و سماوی بلائوں کا ظہور ہو رہا ہے۔ لیکن عبرت پھر بھی نہیں۔ حق تعالیٰ سب کو ہدایت فرمائیں اور فہم سلیم عطا فرمائیں۔    (الافاضات ۶ صفحہ ۷۱

صفحہ نمبر ۴۱۳۔۴۱۴:

عورت کا مرنے کے بعد بھی پردہ:

ایک عالم فرماتے ہیں کہ دیکھو ! جب انسان فوت ہو جاتا ہے ٗ مرنے کے بعد تو کسی بدبخت سے بدبخت انسان کی بھی نیت کسی کے متعلق بری نہیں ہوتی۔ عورت مر گئی ٗ کسی کی نیت بری ہوسکتی ہے؟ لیکن اس وقت بھی شریعت نے کیا کہا؟ کہ:

مرد کا جنازہ لے جائو ٗ ویسے ہی چار پائی پر ڈالو ٗ اُوپر چادر ڈال لو ٗ اس میت کو لے کر چلے جائو ٗ لیکن عورت کا جب جنازہ ہو تو اس وقت کیا کرو؟ عورت کی میت چار پائی پر رکھو ٗ پھر اس کے اُوپر کھونٹیاں سی لگائو۔…(ہمارے ہاں تو ڈولی سی بنی ہوتی ہے)…’’اس کے اُوپر چادر ڈالو تاکہ اس عورت کا بدن مرنے کے بعد کفن کے اندر بھی کسی کو نظر نہ آئے…‘‘آپ کے ہاں ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا؟ عورت کا جنازہ جو ہوتا ہے نا؟ اس کے اُوپر ڈولی لگاتے ہیں نا؟ تاکہ عورت کا بدن نظر نہ آئے ٗ پتہ ہی نہ چلے کہ اس عورت کا قد کتنا تھا؟ موٹی تھی؟ کمزور تھی ؟ پتلی تھی؟ لمبی تھی؟ چھوٹی تھی ٗ کیسی تھی؟…عورت کا بدن کفن کے اندر بھی نظر نہیں آنا چاہئے ٗ شریعت نے یہ حکم دیا… پھر جب قبر میں اُتارتے ہیں ٗ فرمایا: گھر والے قریب ہوں ٗ غیر محرم نزدیک نہ آئیں ٗ پھر چاروں طرف چادریں پکڑ لیتے ہیں… چادریں پکڑکے کھڑے ہو جاتے ہیں ٗ ان چادروں کے پردے میں اس عورت کی میت کو قبر کے اندر رکھتے ہیں… یہ حکم ہے شریعت کا… تو شریعت نے تو عورت کے وجود کو اتنا پردے میں رکھا۔

صفحہ نمبر۴۱۷:

نامحرم مردے سے پردہ کرنے کا حکم:

شریعت میں تو عورت کے لئے یہاں تک حکم ہے کہ وہ نامحرم مردے کو بھی نہ دیکھے۔ چنانچہ حدیث میں مرقوم ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میرے خاوند رسول اللہ  ﷺ کا وصال ہوا۔ تو میں روضہ مقدسہ پر کھلے منہ آیا کرتی تھی۔جب میرے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔ تو پھر بھی میں روضہ مقدسہ پر کھلے منہ آیا کرتی تھی۔ لیکن جب امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یہاں دفن کئے گئے۔ تو پھر میں یہاں کپڑا اوڑھ کر اور منہ ڈھانک کر آیا کرتی۔ کیونکہ وہ غیر محرم تھے۔

دیکھئے پردے کی کس قدر احتیاط کی جاتی تھی۔ بظاہر خیال آتا ہوگا۔ کہ مردے کو دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ سویہ نہ کہو۔ کبھی اس سے بھی روگ پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر روگ لگ گیا۔ یعنی اس کا خیال بندھ گیا۔ تو دل تو ناپاک ہوگیا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    Choose :
  • OR
  • To comment
No comments:
Write comments

Old Copy Sites
http://www.raahehaq313.wordpress.com
http://raahehaq313.blog.com