یکم محرم سے دس محرم تک || خاصوصی مضمون تاریخی حقیقی واقعات

 

 یکم محرم سے دس محرم تک … 

karbala ka waqia , muharram ul haram waqia یکم محرم سے دس محرم تک , کربلا کا واقعہ

یکم محرم‘سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا یومِ شہادت ہے، جب کہ ماہِ محرم کا پہلاعشرہ ‘واقعہ کربلا کے حوالے سے اورسیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ اوراُن کے ساتھیوں کی شہادت کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔

یوں یکم تا دس محرم ،وہ اہم ترین دن ہیں جن میں اسلام کی سیاسی  تاریخ کویکسر بدل دینے والے واقعات بھی رونما ہوئے اور فتنہ پرور مجوسیوں اوراسلام دشمنوں کی طرف سے اِنہی واقعات کوتاریخ سے خیانت کرتے ہوئے اس طرح پیش کیا گیا کہ امت کے خلاف روافض کے شروروفتن کانہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔
درج ذیل مضمون میں قاری ابوعمارہ نے ان واقعات کا پس منظر پیش کیا ہےاورکسی بھی صحابیٔ رسول کی تنقیص سے بچتے ہوئے ‘احتیاط کادامن تھام کرتاریخی واقعات کو اُن کی درست سمت میں پیش کیا ہے۔
مضمون اگرچہ طویل ہے،ہمارے معاشرے میں ماہِ محرم کی نسبت سے روافض کی جانب سے مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم جیسے حساس موضوع کولے کرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سبّ وشتم اورتاریخ کوموڑتوڑ کرپیش کرکے حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مبارک ہستیوں اوراُن کی پاکیزہ سیرتوں سےتنفر پیداکیا جاتا ہے۔
 لہٰذا ہمیں امید ہے کہ اس پُرفتن ماحول کے تناظرمیں،ان تمام شرورکے سدباب کی کوشش کے طورپر ہی مضمون کودیکھا جائے گا اورقارئین پر طوالتِ مضمون گراں نہ گزرے گی۔
الحمدللہ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ

تمام تعریفیں اس پروردگار کی ہیں جو کائنات کا رب ہے۔ اور جس کی قدرت کائنات اور سے باہر جو کچھ بھی ہے سب پر  حاوی ہے۔ جس نے اس کائنات کو انسان کا مسکن بنایا۔ اور انسانوں کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا۔
 ان انسانوں میں سے مسلمان امت کو سردار بنایا اور اس امت اور تمام جہانوں کی سرداری اپنے محبوب پیغمبر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی۔ ان کو آخری نبی اور رسول بنایا اوراپنےدین کے غلبے کا وعدہ اس امت کے ساتھ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے فرمایا۔
 اور ایک دن وہ اس کائنات کو اپنے حرف ’کُن ‘سے ختم کر دے گا اور یوم حساب شروع ہو گا ،جہاں وہ اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کو مسلمانوں کے حق میں قبول کرے گا۔

درود و سلام ہوں محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر جو عالمین کے سردار ہیں اور دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ ان کے ساتھیوں سے اللہ راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں پر اللہ کی رحمت ہو جو اس کے دین کے غلبے کی خاطر پوری دنیا میں جد و جہد کر تے رہیں گے۔

 تاریخِ عالم کو قرآن  حکیم کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے دو ہی گروہ ہیں۔ایک وہ جو اپنی اور اپنے ساتھیوں کی فلاح کے لیے کام کرتا رہا ،اس گروہ میں انبیاء و رسل اور مسلمان شامل ہیں ،جو خیر خواہی کے جذبے سے تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کرتے رہے۔ دوسرے وہ ہیں جنہوں نے سرکشی اختیار کی اور آخر کار وہ اللہ کے نزدیک مغضوب قرار پائے یہاں تک کہ ان کوتباہ کر دیا گیا۔ قومِ نوح، عاد، ثمود، طسم، جدیس، عمالقہ، اصحابِ الرس، اصحابِ مدین، قوم لوط وغیرہ جو اللہ سے باغی ہوئے اور تباہ کر دیے گئے یہ اللہ کی سنت کا ایک دور تھا۔ 

رفتہ رفتہ تمدنِ انسانی کی وسعت ایسی ہو گئی کہ بستیاں‘سلطنتوں میں تبدیل ہو گئیں۔ اس دور میں اقوام کو تباہ کرنے کی بجائے خاص خاص سرکش لوگوں کو اللہ نے تباہ کر دیا اور ان کو باقیوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا تا کہ لوگ ان سے عبرت حاصل کریں۔ نمرود، فرعون، قارون، ھامان، بیل شازار، جالوت، بنی اسرائیل کے سر کش گروہ، دقیانوس، ابرہہ اور قیصر و کسریٰ اسی دور میں تباہ ہوئے۔
 اس دور کا سب سے بڑا واقعہ حضرت عیسی علیہ السلام کا رفع الی السما ءہے۔ 
اس رفع کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص علاقے، رنگ یا نسل کے لیے نہیں بلکہ پورے عالم انسانی کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مکمل ضابطۂ حیات کے ساتھ اس دنیا میں بھیجا گیا‘جو دین اسلام کہلاتا ہے۔
 اس میں احکام و قوانین، سیاسیات، سماجیات اور عمرانیات کے تمام ضابطے موجود ہیں جو قیامت تک کے لیے انسانوں کو کافی ہیں۔ اور اسی کو فلاح کا راستہ قرار دیا گیا ہے۔
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چُنی ہوئی جماعت کا تعاون بھی دیا گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس دین کو دنیا میں پھیلانے کے لیے تیار تھی۔ یہ صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کی جماعت ہےجن کو دنیا میں ہی ’رضی اللہ عنھم و رضو عنہ ‘کا تمغہ عطا کر دیا گیا۔ اس جماعت میں تین قسم کے افراد شامل تھے۔

۱۔ وہ لوگ جو ہجرت سے قبل ہی مسلمان ہو گئے  تھے اور سابقون الاولون کا خطاب حاصل کر چکے تھے۔ اس جماعت کا عمومی مزاج ہی اللہ کے دین کی مناسبت سے ڈھل گیا تھا اور سرداران اسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ خلفائےراشدین اسی طبقے کے لوگ تھے۔

۲۔ وہ لوگ جو بیعتِ رضوان کے بعد اور فتح مکہ سے قبل مسلمانہوئے۔
یہ زیادہ تر عسکری ذہنوں کے لوگ تھے اور مسلمانوں کے ہاتھوں عسکری شکستوں کے بعد مسلمان ہوئے۔ آگے چل کر یہ لوگ اسلامی عسکری تاریخ کا ایک اہم حصہ بن گئے۔

۳۔ وہ لوگ جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے۔ یہ زیادہ تر انتظامی صلاحیتوں کے لوگ تھے۔

ان تین گروہوں کے اشتراکِ عمل سے نہ صرف عرب میں فتنہ ارتدادو بغاوت کا خاتمہ ہوا بلکہ اسلام‘عرب کی حدود سے نکل کر روم و فارس میں پھیل گیا۔ 
یہ وہ وقت تھا جب خلیفۃ رسول‘سیدناابو بکر رضی اللہ عنہ دنیا سے رخصت ہو رہے تھے اور اپنا جا نشین سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بنا چکے تھے۔ نئے خلیفہ کی ذمہ داری اس صورت حال میں بہت زیادہ ہو گئی تھی کہ ایک جانب مسلمان افواج روم اور دوسری جانب فارس میں لڑ رہی تھیں۔
 ان افواج کی ذمہ داری اور حوصلہ افزائی خلیفۂ دوم سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مرہونِ منت تھی اور آپ رضی اللہ عنہ نے اس ذمہ داری کو بہت احسن طریقے سے نبھایا حالانکہ یہ بہت مشکل کام تھا۔
 چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنے ہوئے زیادہ دن نہ ہوئے تھے کہ جسر کی لڑائی میں مسلمانوں کو شکست ہو گئی اور بہت سے لوگ میدان سے بھاگ آئے،ان لوگوں کو حوصلہ دے کر واپس میدان میں بھیجنا اور لوگوں کو طعنہ زنی سے روکنا ‘سیدناعمر رضی اللہ عنہ کا ہی کام تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی اس پالیسی کی وجہ سے ایک جانب قادسیہ میں ایرانی جنگی قوت تباہ کر دی گئی دوسری جانب یرموک میں روم کی قوت پاش پاش ہو گئی،ایک طرف وسط ایشیا اور خراسان کے راستے کھل گئے تو دوسری جانب مصر اور ترکی کی جانب مسلمان افواج کا راستہ صاف ہو گیا۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلام پر سہ جہاتی کام جاری تھا۔

1۔ نئے علاقے فتح ہو رہے تھے اور ان علاقوں میں اللہ کے دین کی اشاعت ہو رہی تھی۔ ایک روایت کے مطابق سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک ہزار چھتیس شہر فتح ہوئے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک وسیع خطےمیں اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا راستہ کھل گیا۔

2۔ مفتوحہ علاقوں میں اللہ کے دین کی تبلیغ کے لیے علماء صحابہ رضی اللہ عنھم کو بھیجا جا رہا تھا۔ چنانچہ شام میں ابو درداء رضی اللہ عنہ، کوفہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ،بصرہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ اسی دور میں بھیجے گئے تھے۔ یہ فہرست اپنی جگہ بہت طویل ہے حدیث و تاریخ میں یہ تفصیل موجود ہے۔

3۔ جیسے جیسے مختلف علاقوں کی آبادی مسلمان ہو رہی تھی،ویسے ویسے اسلام کو نئے مسائل اورنظریات سے سابقہ پیش آرہا تھا۔ اس سے نمٹنے کے لیے تدوینِ سنت کا کام ہوا اور فقہِ اسلامی کی بنیاد پڑی ،یعنی اسلام‘ایک نظام کی حیثیت سے غیر مسلموں کے سامنے پیش ہوا۔جیسا کہ پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ تعلیم ِدین و سنت کے لیے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ہر شہر میں علماء صحابہ کو بھیجا تھا۔ ان صحابہ رضی اللہ عنھم کے شاگردوں نے ابتدائی طور پر ان صحابہ رضی اللہ عنھم کی تعلیمات سے جو نوٹس اور تشریحات لکھیں ان پر آئندہ فقہ کی بنیا درکھی گئی۔
خود سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے تعلیمِ دین کے لیے ایک خاص محکمہ قائم کیا تھا جس کے تحت حفاظ، قراءاور علماکو تنخواہیں ادا کی جاتی تھیں۔ ایک مرتبہ سیدناابو درداء رضی اللہ عنہ کے خاص حلقے کا شمار کیا گیا تو یہ سولہ سو حفاظ پر مشتمل تھا۔
قبائل میں تعلیمِ قرآن  و سنت کے لیے سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ایک شخص ابو سفیان کو مقرر کیا۔ 
یہ قبائل میں گھوم کر ہر شخص کا امتحان لیتے تھے اور نماز و قرآن  کو پرکھتے تھے اور جس شخص کی کوئی کمی یا کوتاہی دیکھتے اس کو سزا دیتے تھے۔ ان تمام کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی معاشرے میں سنت‘مزاج بن گئی۔ اسی دور میں اسلامی نظام پر قلمی کام بھی شروع ہو چکا تھا۔

سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی پالیسی یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو مفتوحہ علاقوں میں راسخ کر دیا جائے ،نو مسلموں کو قرآن  و سنت کی تعلیم دی جائےاور ان کے سامنے احادیث بھی وہ پیش کی جائیں جو سنن ہوں نہ کہ متشابہات،تا کہ ان کے ذہن کسی گمراہی کی طرف مائل نہ ہوں۔
بعد میں جب احادیث کی روایت عام ہو گئی اور گمراہ فرقوں نے متشابہات سے استدلال شروع کیا تو اس پالیسی کی حکمت سب کو سمجھ میں آئی۔

تاریخ کی تدوین مختلف نکتۂ ہائےنظر کے تحت کی جاتی رہی ہے ۔قدیم یونان سے لے کر آج تک ہر دور میں یہ نکتۂ ہائے نظر تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ قرآن  حکیم کا موضوع چونکہ انسان کی دنیوی اور اخروی فلاح ہے،
اس لیے اُس کی تقسیم ہی‘درست تقسیم ہے۔ موجودہ دور میں جو اینلائٹمنٹ کے حوالے سے تاریخ لکھی جا رہی ہے ،وہ اس وجہ سے بھی باطل ہے کہ یہ باغی اذہان کی جانب سے لکھی گئی ہے،
جو اپنی عقل سے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یورپی یا امریکی مورخین کو دیکھیں تو وہ اس پر متفق نظر آتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا نظام ہی بہترین ہے لیکن وہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام کو اس کی تمام تر نحوستوں کے با وجود قابلِ قبول مانتے ہیں اور استدلال یہ کرتے ہیں کہ موجودہ دور میں چودہ سو سال پہلے کا نظام لانا ممکن نہیں ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلام کی برکات پر متفق ہونے کے با وجود عقلی طور پر وہ اس پر اتفاق کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔

سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی اپنی سلطنت پر سیاسی گرفت بھی آہنی تھی اور ان کی موجودگی میں کسی فتنہ کا امکان بھی نہیں تھا۔ سیدناحذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نےایک بار پوچھا کہ
 ’’ جن فتنوں کی پیشگوئی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہےان میں مَیں بھی مبتلا ہو سکتا ہوں؟‘‘
تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جوب دیا :
آپ کے اور ان فتنوں کے درمیان ایک دروازہ ہے اس لیے آپ ان فتنوں سے محفوظ ہیں‘‘۔
 سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ’’ کیا یہ دروازہ کھلے گا یا توڑ دیا جائے گا ؟‘‘ 
جواب ملا :’’یہ توڑ دیا جائے گا‘‘۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’ پھر وہ دروازہ میں خود ہوں‘‘۔ 
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آپ رضی اللہ عنہ کو بھی یہ احساس تھا کہ جو قوتیں اسلام کی دشمنی پر اُتری ہوئی ہیں وہ آپ رضی اللہ عنہ کی جان کے بھی درپے ہیں۔
 اسی لیے آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ سے دعا فرمائی :
’’ اے اللہ مجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں شہادت کی موت عطا فرما‘‘ جو قبول ہو گئی۔ 

اصل الفاظ یہ ہیں’’ سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا فتنہ‘‘…یہ اس فتنہ کی ہمہ گیریت کی جانب اشارہ ہےجو سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے دور کےآخر میں ظاہر ہوا ۔حقیقت میں یہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی شہادت سے ہی شروع ہو گیا تھا۔

سیدناعمر رضی اللہ عنہ کو اسلامی نظام کی مضبوطی کا اس قدر شدید احساس تھا کہ آپ نے معاشرے کی تربیت غیر طبقاتی بنیاد پر کی ،جہاں کوئی نہ تواعلیٰ ہو نہ ہی ادنیٰ بلکہ سب ہی برابر ہوں۔
 خود آپ رضی اللہ عنہ اپنے عُمّال کی ہر حرکت پر نظر رکھتے تھے اور ان کو کسی طرح بھی حدد سے تجاوز نہ کرنے دیتے تھے، تا کہ نئے مسلمان ہو نے والے لوگوں پر اس کا برا اثر نہ پڑے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی اپنی حیثیت بھی مسلمانوں کے ایک فرد سے زیادہ نہ تھی سوائے اس کے کہ آپ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے امیر تھے۔
دس سال آٹھ ماہ کی خلافت میں آپ رضی اللہ عنہ نے خلافتِ اسلامی کو اتنی مضبوط بنیادوں پر استوار کر دیا تھا کہ بعد کی تمام سازشیں ‘اس خلافت کے ادارے کو ختم کرنے میں ناکام ثابت ہوئیں۔ ہاں خود مسلمانوں کے معاملات ایسے ہو گئے کہ خلافت ختم ہو گئی۔

سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی شہادت حادثہ تھا یا اس کے پیچھے کوئی سازش تھی ؟ عام مورخ تو اس کے پیچھے کوئی سازش نہیں دیکھتے مگر محققین کے نزدیک سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی شہادت سازش کا نتیجہ تھی اور اس کے پیچھے ایرانی قوم پرست تھے ۔جنہوں نے ابو لولو فیروز کو آلۂ کار بنایا تھا۔
 ہرمزان ‘جو ایک ایرانی نو مسلم تھا اور اسلام قبول کر کے مدینہ میں ہی رہائش پذیر ہو گیا تھا‘کو ابو لولو سے ملتے دیکھا گیا تھا اور اس وقت ابو لولو کے پاس وہ خنجر بھی تھا جس سے اس نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔ ایک عیسائی جفینہ سے بھی ابو لولو کی ملاقات ثابت ہوتی ہے۔
 بعد میں عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے غصے میں بے قابو ہو کر ہرمزان اور جفینہ کو قتل کر دیا اور یہ شواہد کسی ٹھوس صورت میں سامنے نہ آ سکے۔

محققین نے اس پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے لیکن واقعہ یہی ہے کہ ٹھوس شواہد سامنے نہیں آسکے۔ ہرمزان کے قتل کے شاہدین کا کہنا یہ ہے کہ اس نے قتل کے وقت کلمہ شہادت پڑھا تھااس سے توظاہر یہ ہوتا ہے کہ ہرمزان اس قتل کا شریک نہیں تھا(واللہ اعلم)۔
 لیکن مدینہ میں عجمی اور فارسی النسل غلاموں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو جنگوں میں شکست کے بعد گرفتار کیے گئے تھے اور غلام بنا لیے گئے تھے۔ یہ لوگ سابقہ سپاہی تھے اور اپنی بے بسی اور سابقہ شہنشاہی شان و شوکت یقینی طور پر ان لوگوں کے ذہن میں راسخ تھیی ،حالات نے ان کوغلامی کی زندگی کی جانب دھکیل دیا تھا
 مگر ان کے ذہنوں میں قدیم شہنشاہیت والا ماضی زندہ تھا اور اگر ان لوگوں کی جانب سے سازش ہوئی تھی تو یہ حیرت انگیز نہیں ہے۔ 
سیدناعمر رضی اللہ عنہ ان عجمی النسل لوگوں کو مدینہ میں رکھنے کے خلاف تھے مگر صحابہ رضی اللہ عنھم کے دباؤ کی وجہ سے انہوں نے اِن غلاموں کو مدینہ میں رہنے دیا۔جیسا کہ وفات سے کچھ دیر پہلے سیدناعمر رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مکالمے سے ظاہر ہوتا ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ ان غلاموں کو مدینہ میں رکھنے کے حامی تھے۔

سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی شہادت تاریخ اسلامی کا ایک عظیم سانحہ ہے لیکن سیاست ِسیدناعمر رضی اللہ عنہ اتنی فیصلہ کن تھی کہ اس سے فائدہ اٹھانے کا غیر مسلم طاقتوں کے پاس کوئی راستہ نہ تھا۔ انتہائی پُر امن طریقے سے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بن گئے اور اگلے چھ سال سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی سیاست ہی کارفرما رہی کہ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کی نرم مزاجی کے با وجود کوئی فتنہ برپا نہیں ہوا۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں کیونکہ مال ودولت کی فراوانی ہو گئی تھی اور مختلف علاقوں کی فتوحات کی وجہ سے مال غنیمت اُمڈا چلا آ رہا تھا اس سے بہت سی خرابیاں بھی رو نما ہو رہی تھیں۔



 عام لوگ خوش حال اور فارغ البال ہو گئے تھے۔ خوش حالی تو فتنہ نہ تھی مگر فارغ البالی فتنے کا سبب بن رہی تھی۔ بے فکری عام تھی اور نئے مفتوحہ علاقوں میں مسلمان ہو نے والے اس سطح کی تربیت حاصل نہ کر سکے تھے جو صحابہ رضی اللہ عنہ کو یا ان کے بعد آنے والوں کو ملی۔



 اسلام کا بنیادی طرزِ حیات سادگی اور قناعت کی دعوت دیتا ہے ،اس سادگی اور قناعت کو مدینہ یا مکہ میں تو برقرار رکھا جا سکا مگر شام ،عراق ،مصر وغیرہ‘جہاں پہلے شہنشاہیت موجود رہی تھی‘وہاں اس سادگی کو برقرار رکھنا مشکل ہو گیا۔یوں وہ طبقاتی تفاوت ابھر کر سامنے آ گیا جس کو سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے پوری قوت سے دبائے رکھا تھا۔


 سب سے پہلے سیدناابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے شام میں اس تفاوت کے خلاف آواز بلند کی ۔گو یہ آواز طبقاتی تفاوت کے خلاف تھی لیکن بہت جلد اس کا رُخ مڑ کر مال و دولت جمع کرنے والوں کے خلاف ہو گیا۔


 شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ مال و دولت جمع ہونا ہی اس تفاوت کی وجہ بنا تھا۔ شام میں سیدناامیر معاویہ رضی اللہ عنہ گورنر تھے انہوں نے پہلے تو ابو ذر رضی اللہ عنہ کو سمجھایا مگر انہوں نہ اس پر کان نہ دھرے اور بدستور مال و دولت جمع کرنے کی مذمت جاری رکھی۔


 ان کا استدلال تھا کہ مال کو اکٹھا کر کے رکھنے کے نتیجے میں یہ قیامت کےدن سانپ بنا کر اور آگ میں تپا کر داغا جائے گا ،اس لیے اس کو خرچ کر دو۔ مگر دوسرے صحابہ رضی اللہ عنھم کا استدلال تھا کہ مال و دولت میں سے زکوٰۃ نکالنے کے بعد یہ پاک ہے اور اس پر عذاب نہ ہو گا بلکہ اگر سارا ہی مال خرچ کر دیا جائے گا تو وراثت کے احکامات کس طرح جاری ہوں گے؟ ظاہر ہے اس مسئلے میں سیدناابو ذر رضی اللہ عنہ کا مسلک انتہا پسندی پر مبنی تھا۔ 


سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی شکایت مرکز ِخلافت میں کی تو سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو مدینہ بلا لیا۔ مگر مدینہ بھی اب وہ مدینہ نہ رہا تھا ،مال و دولت کی فراوانی نے یہاں بھی اپنے اثرات چھوڑے تھے۔


 چنانچہ یہاں بھی ابو ذر رضی اللہ عنہ کے صحابہ رضی اللہ عنہ سے مناظرے ہوئے مگر ان کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور تنگ آ کر ابو ذر رضی اللہ عنہ نے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ سے ربذہ کے مقام پر منتقل ہونے کی خواہش ظاہر کی جو پوری کر دی گئی،ان کو وظیفہ ویسے ہی جاری رہا جیسے اس سے پہلے ہوتا تھا۔ یہیں ابو ذر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا۔

اسی دوران میں شام میں عبداللہ بن سبا اور اس کے ساتھیوں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے بدسلو کی کی کہانیاں پھیلا کر رائے عامہ کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کو امیر معایہ رضی اللہ عنہ نے سنبھال لیا اور فسادیوں کو مصر و عراق میں منتشر کر دیا گیا۔
 یہ منتشر کرنا خود سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کی ہدایت پر تھا جو کشت و خون کو ناپسند کرتے تھے ،ورنہ اس جرم کی سزا قتل سے کم نہیں ہو سکتی تھی۔ ان باغیوں نے جُہلاکو اپنے ساتھ ملایا اور ایک تحریک کھڑی کر دی جو سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف کام کر رہی تھی۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر مختلف الزامات عائد کیے گئے اور یہ لوگ بصرہ، کوفہ اور مصر سے مدینہ آ دھمکے۔
 ان لوگوں کی بات چیت سیدناعثمان رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور اکابر صحابہ نے بھی ان کو سمجھایا اور بعض یقین دہانیوں پر یہ لوگ واپس جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ ابھی یہ لوگ کچھ دور گئے تھے کہ انہوں نے ایک سازش تیار کی اور واپس مدینہ آ ئے اور ایک شخص کو پیش کیا جو مصر جا رہا تھا اور اس کے پاس مصر کے حاکم کے لیے ہدایت تھی کہ ان باغیوں کو قتل کر دیا جائے۔ 
سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے اس  صورت حال سے برأت کا اظہار کیا۔ باغیوں نے اس حکم نامے کو لکھنے کا الزام مروان بن حکم پر لگایا اور اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے اس مطالبے کو رد کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ خود امیر تھے اور اس طرح کے مقدمات میں فیصلہ کا اختیار انہی کے پاس تھا ،سو ان سے اس طرح کا مطالبہ کرنا ہی اس بات کی علامت تھا کہ ان کو خلیفہ اور امیر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ مروان کی حوالگی سے انکار کے بعد باغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر خلافت سے دست برداری کے لیے دباؤڈالنا شراوع کر دیا۔
 اس کشمکش میں سیدناعثمان رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے اور مسلمان کسی امیر کے بغیر رہ گئے۔ باغیوں کو معلوم تھا کہ حج ہو چکا ہے اور مسلمانوں کے قافلے اب دربارِ نبوی پر حاضری کے لیے روانہ ہو ں گے، مدینہ کے لوگ جو حج کے لیے جا چکے تھے وہ بھی واپس آ ئیں گے تو باغیوں کو امان نہیں ملے گی۔ انہوں نے مدینہ میں موجود اکابرین پر دباؤڈالا کہ وہ خلافت کی مسند پر بیٹھ جائیں۔ مدینہ میں علی المرتضیٰ، طلحہ بن عبیدللہ اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنھم اجمعین موجود تھے۔
 ان تینوں نے انکار کر دیا مگر باغیوں نے حضرت علیرضی اللہ عنہ کو قتل کی دھمکی دی تو آپ رضی اللہ عنہ نے باغیوں سے بیعت لینے کی بجائے مسجد نبوی میں اہل مدینہ سے بیعت لی ،اس بیعت کے بعد باغیوں نے بھی بیعت کر لی۔

اس بیعت سے صورت حال نہیں بدلی ۔سب متفق تھے کہ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نا حق اور مظلوم شہید ہوئے ہیں اور ان کا قصاص لیا جانا واجب ہے ۔چنانچہ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنھما مدینہ سے مکہ گئے ،جہاں اماں عائشہ رضی اللہ عنھا پہلے ہی موجود تھیں۔ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنھما نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت بھی کر لی تھی اور اس کو فسخ کرنے کے لیے بھی وہ تیار نہیں تھے۔
 مگر قتلِ عثمان ایسا معاملہ تھا جس کو کسی طرح موخر نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس صورت حال میں کہ خلیفہ باغیوں کے نرغے میں ہو یہی فیصلہ ہو سکتا تھا کہ چھاونیوں کا رخ کیا جائے اور افوجِ اسلامیہ کو باغیوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ کیا جائے۔ ایک لشکر جس کی سربراہی زبیر رضی اللہ عنہ کر رہے تھے ،
 بصرہ کی جانب روانہ ہوا۔ بصرہ سے مدد حاصل کرنے کے بعد یہ لشکر کوفہ کو مڑا،مگر اس سے پہلے ہی باغی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ چھوڑ کر کوفہ روانہ ہونے کے لیے مجبور کر چکے تھے۔ 
کوفہ پر قبضہ کے بعد ابھی سیدنازبیر رضی اللہ عنہ کچھ سانس ہی لے سکے تھے کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کا لشکر کوفہ پہنچ گیا۔ اس لشکر کی سربراہی سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں برائے نام ہی تھی کیونکہ قاتلین عثمان اس لشکر کے اراکین اور سرداران تھے۔ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ اور عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ تھے ۔
ان دونوں کو سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیج دیا،یہاں صلح کی بات چیت ہوئی اور اصولی طور پر سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اعتماد اور قاتلینِ عثمان سے قصاص لینے پر اتفاق رائے طے پا گیا۔ اس وقت کیونکہ رات ہو رہی تھی اس لیے صلح کا زبانی اعلان کر دیا گیا اور اصل کارروائی کو اگلے روز پر ملتوی کر دیا گیا۔ اس التوا کا فائدہ اٹھا کر قاتلین عثمان‘جو اس صلح سے سب سے زیادہ پریشان تھے کہ ان کی جانوں پر بن گئی تھی نے‘سیدنازبیر رضی اللہ عنہ کے لشکر پر حملہ کی اور جنگ شروع کر دی ۔رات کی تاریکی میں تو کچھ معلوم نہ ہو امگر صبح ہوئی تو دونوں لشکر ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے۔ 
اس جنگ نے عشرہ مبشرہ کے دو اہم ارکان کو نگل لیا ،حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنھما اس جنگ میں شہید ہو گئے۔سیدناطلحہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا الزام مروان بن حکم پر لگایا جاتا ہے لیکن اس کی کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں ہے۔ ویسے بھی جنگ کے اژدہام میں یہ دیکھنا کہ کون کس کو نشانہ بنا رہا ہے ممکن نہیں تھا اور جمل کی جنگ تو ویسے بھی ایک بھگدڑ تھی۔ اندازہ یہ ہے کہ یہ نام بعد میں داخل کیا گیا تا کہ مروان کی ذات پر باغیوں کے الزامات کو درست ثابت کر کے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کو شبہ سے نکالا جا سکے( واللہ اعلم)۔کہا یہ جاتا ہے کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے لشکر کو فتح ہوئی مگر کیا یہ واقعی فتح تھی؟
 سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’ کاش کہ میں بیس سال پہلے مر گیا ہوتا‘‘۔ فتح پر اس طرح کے الفاظ کون بولتا ہے؟

باغیوں نے فتح کے نشے میں مالِ غنیمت کی تقسیم کا بھی مطالبہ کیا مگر حضرت علی ضی اللہ عنہ نے سوال کیا :’’ تم میں سے کون اپنی ماں عائشہ رضی اللہ عنہ کو باندی بنانا چاہتا ہے؟ ‘‘ اس سوال پر باغی اپنے مطالبے سے دست بردار ہو گئے۔ مالِ غنیمت کی تقسیم کامطالبہ بہت حیرت انگیز ہے، 
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت بھی باغیوں میں مسلمانوں کو کافر سمجھنے والا عنصر موجود تھا جیسا کہ صفین کے بعد خوارج کی صورت میں سامنے آیا۔ بہر حال جنگ ختم ہو گئی ،طلحہ و زبیر رضی اللہ عنھما شہید ہو گئے 
،اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کو عزت و احترام سے واپس مدینہ روانہ کر دیا گیا اور عراق میں امن قائم ہو گیا۔ لیکن یہ امن عارضی تھا کیونکہ اصل مسئلہ یعنی قصاصِ عثمان ابھی تک حل نہیں ہوا تھا اور مسلمانوں میں اضطراب کا باعث بن رہا تھا۔ ابھی تک مصر و شام نے کسی قسم کی مخالفت نہیں کی تھی اور شاید یہ سوچ کار فرما تھی کہ مدینہ و کوفہ ہی اس معاملے کو بہتر طور پر سمجھ کر حل کر لیں گے۔
 مگر ہوا اس کے بر عکس اور مدینہ کی مرکزی حیثیت بھی کوفہ منتقل ہو گئی ،جہاں سیدناعلی رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ موجود تھے اور اس لشکر کے اصل کارپرداز وہ باغی تھے جو قتلِ عثمان میں ملوث تھے۔

ان حالات میں شام و مصر نے بیعت کرنے سے انکار کر دیا جب تک کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص نہ لیا جائے۔ یہ ایک نئی طرز کا اقدام تھا۔ اس کو سمجھنے کے لیے شام و مصر کے حالات کا اندازہ کرنا ضروری ہے۔

شام میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور سے گورنر چلے آ رہے تھے۔ جب کہ مصر میں سیدناعمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بھی کافی عرصے سے گورنر تھے اور اپنے علاقوں پر ان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ دوسری بات یہ تھی کہ سیاسی تدبر کے لحاظ سے یہ دو



نوں عرب کے مانے ہوئے لوگ تھے۔ سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کو ’سیاس العرب‘کا خطاب خود سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے دیا تھا۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کی فہم فراست کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم میں کیا رائے پائی جاتی تھی۔ سیدناعمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بھی اسی پائے کے آدمی تھے ۔اس صورت حال میں سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مشکل محاذ کُھل گیا تھا اور یہ ایسا محاذ تھا جو نہ ان کی مرضی سے کھلا تھا نہ جس پر وہ لڑنا چاہتے تھے۔
 خود حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے پہلے کوفہ کی جانب پیش قدمی کی شدید مخالفت کی تھی اور بعد میں صفین کی جانب کوچ کے موقع پر بھی آپ کی مخالفت واضح تھی۔ مگر حالات ایسے تھے کہ علی رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں ’’ عقلیں حیران ہیں اور فتنہ کا ایک در بند کرتے ہیں تو دوسرا کھل جاتا ہے‘‘والا معاملہ ہو گیا تھا۔ 
اس سارے معاملے کی توجیہ حضرت  عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کی انہوں نے فرمایا :

’’ جب اللہ کے کسی نبی کو قتل کیا گیا تو اس قاتل قوم کے ستر ہزار افراد اس کے بدلے میں قتل کیے گئے اور جب کسی نبی کے خلیفہ کو قتل کیا گیا تو پینتیس ہزار افراد قتل ہوئے‘‘۔

 جمل کی خوں ریزی ابھی خشک نہ ہوئی تھی کہ باغیوں نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف پیش قدمی کروا دی۔ یہاں معاملہ یہ تھا کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی تجویز کہ ’’پہلے بیعت کر لی جائے بعد میں قصاص کا معاملہ دیکھ لیا جائے گا‘‘۔ یہ ہر لحاظ سے بہترین تھی مگر حالات ایسے تھے کہ کسی کو بھی باغیوں کی نیت پر اعتماد نہ تھا ۔جمل کا معاملہ سب کے سامنے تھا جب ہوئی ہوئی بیعت کو دھوکے سے جنگ میں بدل دیا گیا تھا۔سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کو سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے کوچ کی خبر ملی تو وہ بھی اپنے لشکر کے ساتھ صفین کی جانب رونہ ہو گئے جو شام و عراق کا ایک سرحدی مقام ہے۔ 

شام میں صرف سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی گورنری ہی نہیں تھی بلکہ بنی امیہ کی ایک بڑی تعداد بھی شام میں آباد ہو گئی تھی ۔جب یہاں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کی خبر پہنچی تو رائے عامہ مشتعل ہو گئی یہ اشتعال نہ تو سیدناحضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف تھا نہ ہی خلافت کے ،بلکہ یہ اشتعال باغیوں کے خلاف تھا۔
 اس اشتعال میں اور بھی اضافہ ہوا جب جمل کی صلح کو دھوکے سے جنگ میں بدل دیا گیا۔ چنانچہ اب مصر بھی شام کے ساتھ شامل ہو گیا اور عالمِ اسلام عملاً دو حصوں میں  بٹ گیا۔ ایک جانب حجاز عراق اور خراسان تھے تو دوسری جانب یمن مصر اور شام تھے۔ صفین میں جو افواج اکٹھی ہوئی تھیں وہ انہی علاقوں سے آئی ہوئی تھیں۔

جنگ صفین میں کیا ہوا؟

یہ ایک انتہائی الجھا ہوا معاملہ ہے۔ تاریخی حوالوں سے دیکھیں تو ایک بڑی خونریزی اور جنگ و جدل جو دو ماہ تک جاری رہا۔ مگر جب ہم ان حوالوں کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اکثر کہانیاں ہیں جن کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صفین میں کوئی بڑی جنگ وقوع پذیر نہیں ہوئی بلکہ چند جھڑپیں ہوئیں جن میں سے ایک میں سیدناعمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے۔ چونکہ عمار رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بشارت دی تھی کہ ان کو شہید کیا جائے گا اور ان کوایک باغی گرو شہید کرے گا تو یہ الزام سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر پر لگا کر ان کو باغی گروہ باور کرانے کی کوشش کی گئی۔ مگر سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے بیان نے واضح کر دیا کہ عمار رضی اللہ عنہ کو انہی لوگوں نے شہید کیا تھا جو ان کو جھڑپ کے مقام پر لائے تھے۔ اگرچہ بعد میں اس بیان کو بھی مشکوک کرنے کی کوشش کی گئی لیکن خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو باغی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایک معاملے میں اختلاف کو اس سب  لڑائی کی وجہ سمجھتے تھے۔



یہ ایک انتہائی الجھا ہوا معاملہ ہے۔ تاریخی حوالوں سے دیکھیں تو ایک بڑی خونریزی اور جنگ و جدل جو دو ماہ تک جاری رہا۔ مگر جب ہم ان حوالوں کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اکثر کہانیاں ہیں جن کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صفین میں کوئی بڑی جنگ وقوع پذیر نہیں ہوئی بلکہ چند جھڑپیں ہوئیں جن میں سے ایک میں سیدناعمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے۔ 



چونکہ عمار رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بشارت دی تھی کہ ان کو شہید کیا جائے گا اور ان کوایک باغی گرو شہید کرے گا تو یہ الزام سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر پر لگا کر ان کو باغی گروہ باور کرانے کی کوشش کی گئی۔ مگر سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے بیان نے واضح کر دیا کہ عمار رضی اللہ عنہ کو انہی لوگوں نے شہید کیا تھا جو ان کو جھڑپ کے مقام پر لائے تھے۔ اگرچہ بعد میں اس بیان کو بھی مشکوک کرنے کی کوشش کی گئی لیکن خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو باغی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایک معاملے میں اختلاف کو اس سب  لڑائی کی وجہ سمجھتے تھے۔


صفین میں ایک لشکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تھااور دوسرا لشکر سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کا ،یہ متحارب گروہ تھے۔ مگر ایک تیسرا لشکر بھی تھا۔
 یہ لشکر قاریوں کا لشکر کہلاتا تھا اور اس کے خیمے دونوں افواج کے عین بیچوں بیچ لگائے گئے تھےاور اس سے کوشش یہ تھی کہ کوئی بھی کشیدگی وقوع پذیر نہ ہو اور اگر ہو جائے تو اس کو روکا جائے۔ یہ واضح رہے کہ خوارج کو بھی ’قراء‘ کا نام دیا جاتا تھا 
لیکن بعد میں انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا تو ان کو الگ سے خوارج کا نام دیا گیا اور ’قراء ‘کا نام ان سے ساقط کر دیا گیا۔ ابو وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ’قراء ‘کا لفظ ان صلح کروانے والے حضرات کے لیے استعمال ہوا ہے اور ابن کثیر نے اس سارے معاملے کو ابو وائل رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔
 ان حضرات کی کوشش یہ تھی کہ صلح کی کوئی صورت نکل آئے اور مسلمانوں کے درمیان قتل و غارت کا سلسلہ بند ہو۔ ان کی کوششوں کے باوجود ایک معرکہ ایسا گرم ہوا کہ کسی طرح نہ رُکا۔اس معرکے کو ختم کرنے کے لیے انہی حضرات نے قرآن  نیزوں پر اٹھا کر جنگ بندی کی کامیاب کوشش کی۔ آخر کار دونوں گروہ تحکیم پر راضی ہو گئے۔ اور ان حضرات کی کوششیں با آور ثابت ہوئیں۔ ایک اور روایت کے مطابق صفین کے معرکے کے ختم ہونے کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ وہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے پاس قرآن  مجید بھیجیں اور اس پر صلح کی بات کریں ۔
سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا اور سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے بھی اس کو تسلیم کر لیا ۔اس طرح تحکیم کا معاملہ وقوع پذیر ہوا ۔لیکن اس روایت میں قرآن  نیزوں پر اٹھانے کا تذکرہ نہیں ہے ،ممکن ہے کہ یہ دونوں ہی واقعے ہوئے ہوں۔تحکیم کے لیے دو حضرات کو نامزد کیا گیا

1۔ سیدناابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ 

2۔ سیدناعمرو بن العاص رضی اللہ عنہ۔

ان دونوں حضرات پر مسلمانوں نے کامل اعتماد کا اظہار کیا اور دومۃ الجندل میں ان حضرات کی بیٹھک ہوئی۔ ان حضرات کے سامنے امت کے مستقبل کا سوال تھا۔ یہ واضح رہے کہ یہ دونوں کسی گروہ کی نمائندگی کے لیے اکٹھے نہیں ہوئے تھے جیسا کہ بعض تواریخ میں لکھا جا چکا ہے بلکہ یہ امت کے نمائندوں کی حیثیت سے امت کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ 
اس کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس تھی اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اس کمیٹی کے رکن تھے۔ ان دونوں حضرات کے ساتھ ایک مضبوط جماعت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں موجود تھی تا کہ باغی ان مذاکرات کو سبو تاژ نہ کر سکیں ۔اس بات کا خدشہ یوں تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا لشکر تو صفین سے واپس ہو گیا تھا مگر علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کے بہت سے لوگ دومۃ الجندل آگئے تھے اور ان کے پرانے کرتوت کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی ناقابل یقین بات نہیں تھی کہ وہ ان دو حَکم حضرات پر حملہ کی کوشش نہ کرتے ۔چنانچہ غیر جانبدار افراد جو صفین میں قاری کہلائے تھے ان دونوں حضرات کی حفاظت پر مامور ہوئے۔ ان حضرات کی گفتگو کئی دن تک جاری رہی اور یہ دونوں ایک حکمت عملی وضع کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

اس حکمت عملی کا اعلان کرنے کے لیے یہ دونوں حضرات اپنی جائے قیام سے باہر آئے اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اس حکمت عملی کا اعلان کیا۔ یہ دو نکات پر مشتمل تھی۔

1۔ علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ دونوں کو ان کے مناصب سے معزول کیا جاتا ہے۔

2۔ مسلمان اپنا امیر چننے کے لیے آزاد ہیں۔

ابو موسیٰ شعری رضی اللہ عنہ نے اعلان کر دیا تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا ’’ علی رضی اللہ عنہ کو تو بے شک معزول کر دو مگر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ان کے عہدے پر رہنے دو‘‘۔ اس بات کو اتنا اچھالا گیا کہ آج بھی ان پر سب سے بڑا الزام یہی لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے نمائندے کی حیثیت سے بد عہدی کی لیکن حقیقت کیا ہے اس پر ایک بار نظرا ڈالتے ہیں:

1۔ نہ تو ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور نہ ہی عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کسی گروہ کے نمائندے تھے ،نہ وہ اس معاملے کو اپنی ترجیحات کے حوالے سے حل کر سکتے تھے بلکہ یہ معاملہ کتاب و سنت کے ذریعے حل ہونا تھا اور اس کا حل سیاسی ہونا بھی ضروری تھا کیونکہ یہ معاملہ ہی سیاسی تھا۔ یوں کہناچاہیے کہ یہ دو رکنی کمیٹی تھی۔

2۔ کمیٹی کے سربراہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تھے نہ کہ کمیٹی میں دونوں برابر حیثیت کے مالک تھے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور سے ہی کتاب و سنت کے عالم تصور ہوتے تھے اور مدینہ کے اصحاب فتویٰ میں آپ کابھی شمار ہوتا ہے۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان کے فیصلے کی سیاسی تطبیق کر رہے تھے تا کہ اس معاملے میں کوئی ابہام باقی نہ رہ جائے۔

3۔ فیصلے کا اعلان بھی ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کیا نہ کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے۔

4۔ جب کمیٹی اپنا فیصلہ سنا چکی تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک رائے پیش کی جس کے متعلق مسلمانوں کو اختیار تھا کہ اس کو قبول کر لیں یا رد کر دیں۔

ان چاروں نکات کو ذہن میں رکھیں اور خود فیصلہ کریں کہ کیا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ پر عائد کردہ الزام درست ہے؟ اور جو گفتگو ان دو معزز صحابیوں کی  تاریخ کی کتابوں میں نقل کی گئی ہے وہ درست ہو سکتی ہے؟ اور کیا یہ ان حضرات کی بارگاہ میں بہت بڑی گستاخی نہیں کہ ان کو امت کے معاملات میں خائن بتایا جائے؟سیدناعمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے مشورے کی بنیاد یہ تھی کہ اصل معاملہ قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کا ہے اور وہ مرکز سے متعلق ہے اس لیے معاملہ کو مرکز تک ہی رکھا جانا چاہیے ۔ایک صوبائی عامل کو معزول کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا معاملہ تو وہیں رہے گا۔

کمیٹی نے تو اپنا فیصلہ سنا دیا مگر اس فیصلے کو بوجوہ تسلیم نہ کیا گیا۔ دراصل کمیٹی کا فیصلہ قصاصِ عثمان کے معاملے میں آنا چاہیے تھا لیکن اس نے اس بنیادی جڑ کو ہی ختم کرنے کی کوشش کی تھی جو قاتلینِ عثمان کو پناہ فراہم کر رہی تھی ۔ان حالات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حامیوں کی جانب سے اس فیصلے کو مسترد کر دینا کچھ حیرت کی بات نہیں ہے ۔
حیرت اس بات پر ہے کہ خودسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے بھی اس فیصلے کو مسترد کر دیا۔ ہو سکتا ہے خودسیدناعلی رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی کمیٹی نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہو۔اب صورت حال کچھ ایسے بنی کہ شام مصر اور یمن کو خلافت کے زیر اثر آزاد علاقہ تصور کر لیا گیا۔ جب کہ حجاز عراق اور خراسان ( ما وراء النہر) کو خلافت کا اصل علاقہ تصور کر لیا گیا۔ بہر حال جنگ بندی ہو گئی اور امن قائم ہو گیا۔

اسی دوران میں سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں سے ایک گروہ نے بغاوت کی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر تحکیم کو قبول کر لینے کی وجہ سے کفر کا فتویٰ عائد کیا ۔ان کے نزدیک اللہ کے علاوہ کسی کی تحکیم قابل قبول نہیں تھی۔ اس گروہ کے نزدیک سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ بغاوت کی وجہ سے اور سیدناعلی رضی اللہ عنہ تحکیم کو قبول کر لینے کی وجہ سے کافر ہو گئے تھے ( اعاذناللہ من  ذالک) ۔
اس گروہ کو توبہ کی دعوت دی گئی مگر جب انہوں نے توبہ نہ کی تو ان کے ساتھ قتال کیا گیا اور چار ہزار کی تعداد میں ان کو قتل کر دیا گیا۔ یہ امت میں خوارج کا اولین ظہور تھا۔ ( سنت کے راستے کو چھوڑ دینے یا آپس میں نا اتفاقی کے کیا کیا مصائب و نتائج ہو سکتے ہیں اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے)۔

نہروان کی جنگ کے بعد خوارج نے ایک سازش کے ذریعے علی، معاویہ، اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہھم کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی۔ اس کوشش کے نتیجے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے۔ اب خلافت کی مسند پر سیدناحسن بن علی رضی اللہ عنہ رونق افروز ہوئے۔ ان کوبھی اسی طرح سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑوانے کی کوشش کی گئی جیسے سیدناعلی رضی اللہ عنہ کو لڑایا گیا تھا۔
 مگر پہلے ہی معرکے میں سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نے باغیوں کو عبرت ناک شکست دی۔ 
یہ خبر کوفہ پہنچی تو باغیوں نے سیدناحسن رضی اللہ عنہ پر حملہ کر دیا اور ان کوہی لوٹ لیا۔ 
یہ ماجرا دیکھ کر سیدناحسن بن علی رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے توسط سے سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی۔ اور خلافت کی ذمہ داری سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دی۔ اس طرح کوئی پانچ سال بعد عالم اسلام دوبارہ ایک مرکز پر اکٹھا ہو گیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیدناحسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں پیشین گوئی :’’ میرا یہ بیٹا سردار ہے، امید ہے کہ اللہ اس کے ذریعے امت کے دو گروہوں میں صلح کروائے گا‘‘ پوری ہوئی۔

سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت انیس سال آٹھ ماہ جاری رہی۔ اس خلافت میں نہ صرف عام مسلمان کو خوش حالی اور امن و امان نصیب ہوا بلکہ اسلامی سلطنت کا دائرہ چوالیس لاکھ مربع میل سے بڑھ کر چونسٹھ لاکھ مربع میل پر پھیل گیا۔ یہ اس وقت کی معلوم دنیا کا نصف تھا۔
 قسطنطنیہ پر حملہ کی صورت میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بشارتیں ارشاد فرمائی ہیں اور قسطنطنیہ کے فاتح کے لیے جس قسم کے انعامات ارشاد ہوئے ہیں،ان کے حصول کے لیے آپ رضی اللہ عنہ نے نہ صرف قسطنطنیہ پر بار بار حملے کیے بلکہ اس کو فتح کرنےکے لیے باقاعدہ گرمائی حملوں کی بنیاد رکھی۔
 (  یعنی ہر موسم گرما میں روم کے اند ر ایک حملہ ضرور کیا جاتا تھا)۔
 ان حملوں میں سے ایک حملے میں یزید اور حضرات حسنین رضی اللہ عنھما اکٹھے شریک تھے 
جب کہ یزید اس لشکر کا امیر تھا۔ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ‘جو میزبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ‘ان حملوں میں شریک ہوتے رہے یہاں تک کہ ان کا انتقال ایسے ہی ایک حملے میں ہوا اور آپ رضی اللہ عنہ کو روم کی سرزمین پر ہی قسطنطنیہ کی دیواروں کے نیچے دفنایا گیا۔ بحری جہاد اسی دور میں شروع ہوا اور باقاعدہ بحری بیڑے تیار کر کے سمندروں میں بھی کفر کو للکارنے کا عمل جاری ہوا(سیدناامیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو امیر اسی لیے کہا جاتا ہے کہ آپ مسلمانوں کے پہلے امیر البحر تھے)۔

۵۰ھ میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنا جانشین مقرر کر دیں ۔
یہ مشورہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے دیا تھا جوکوفہ کے گورنر تھے۔ اس مشورہ کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمان اس طرح کے حالات سے ڈرے ہوئے تھے جو شہادتِ عثمان کے بعد پیدا ہوئے ۔اس لیے یہ کوشش کی گئی کہ کسی کی نامزدگی ہو جائے تا کہ امت‘سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد کسی انتشار کا شکار نہ ہو۔ اس مشورے کے ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نے اس سال حج کے بعد مدینہ حاضری کے موقع پر اکابر صحابہ کے سامنے اس بات کو رکھ دیا اور ولی عہد کے طور پر یزید کا نام پیش کیا۔ اس ولی عہدی کے پیچھے کوئی پدری شفقت موجود نہ تھی بلکہ اس وقت تک یزید نے صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کی موجودگی میں خود کو امارت کا اہل ثابت کیا تھا۔ مگر اصحابِ مدینہ اس تجویز کے سخت مخالف ثابت ہوئے۔

اس وقت مدینہ میں چار اصحاب تھے جو اکابر کہلا سکتے تھے۔

۱۔ سیدناحسین بن علی رضی اللہ عنہ  ۲۔ سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ            

۳۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ     ۴۔ سیدناعبدالرحمٰن بن ابو بکر رضی اللہ عنہ

حسین ابن علی، عبدالرحمٰن بن ابو بکر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم نے تو اس تجویز کے حمایت ضرور کی مگر یزید کی ولی عہدی کی کھل کر مخالفت کی اور یہاں تک کہا کہ آپ اپنے بعد امت کو اسی حال میں چھوڑ جائیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  چھوڑ گئے تھے۔ یا پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح کسی ایسے شخص کو نامزد کریں جو آپ کا عزیز نہ ہو۔سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے واضح الفاظ میں ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ 
اہل مدینہ کی رائے اور مخالفت جان کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بات پر اصرار نہیں کیا۔ یہ بات یہیں ختم ہو گئی اور اگلے دس سال سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات تک اس بات کا تذکرہ بھی کہیں نہیں ہوا۔ ۵۸ ھ میں عبدالرحمٰن بن ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انتقال کیا، جبکہ رجب ۶۰ھ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔

معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے وقت یزید دمشق سے باہر تھا چنانچہ امرائے شام نے اس کو بلا کر معاویہ رضی اللہ عنہ کی اس پرانی تجویز کی روشنی میں امیر مقرر کر دیا۔ اس سے یہ شبہ نہ ہو کہ یزید خود امارت سنبھالنے کا خواہش مند نہیں تھا بلکہ یہ معاملہ یزید کی رضا مندی سے ہی پیش آیا تھا۔اس کاحمایتی گروہ اس کو اقتدار دلانے کے لیے پوری طرح سرگرم تھا ۔ویسے بھی اگر یزید اس معاملے میں شامل نہ ہوتا تو وہ اس معاملے کو مسلمانوں کے مشورے سے مشروط کر دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا 
بلکہ بغیر مشورے کے مسلمانوں کے معاملات پر قبضے اور اس کے بعد زبردستی بیعت لینے کے معاملات یہ واضح کرتے ہیں کہ اس مسئلے میں یزید بد نیت تھا۔ابھی اس کو خلیفہ تسلیم ہی نہیں کیا گیا تھا کہ اس نے اہلِ حجاز سے زبردستی بیعت لینے کی کوشش کی جس کا اس کو حق ہی نہ تھااور یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتوے کے بھی خلاف تھا ۔سیدناعمر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ کوئی معمولی بات نہیں تھی ،اس میں ایسے شخص کو قتل کردینے کا حکم تھا۔اس تناظر میں سیدناحسین رضی اللہ عنہ اور سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا عمل بالکل جائز تھا کہ انہوں نے ایک ایسے معاملے میں جھکنے سے انکار کر دیا جس کا یزید کو حق ہی نہ تھا۔ 
یوں سمجھیں کہ یزید امیر تھا ہی نہیں مگر وہ جس سختی کو اختیار کر رہا تھا وہ دوہرا ظلم تھا اور یہ دستور کی خلاف ورزی تھی جس کے تحت اہلِ رائے لوگوں کو اپنا امیر چننے کا حق تھا۔ چنانچہ جب یزید کے امیر بننے کی خبر مدینہ پہنچی تو ساتھ ہی یزید کی بیعت کے لیے امیر ِمدینہ کے پاس حکم بھی آ گیا۔
 یہ دوسرا ظلم تھا یعنی ایک تو امرِخلافت میں کسی قسم کا مشورہ نہیں کیا گیا تھا،دوسرے بیعت کے لیے زبردستی کی جا رہی تھی۔ابھی یہ معاملات جاری تھے کہ مروان بن حکم ‘جو اس وقت مدینہ میں موجود تھا ‘کوامیر مدینہ بنا کر حکم دیا گیا کہ ہر صورت میں بیعت لو۔مروان نے ہر تین حضرات ( عبداللہ بن عمر، حسین بن علی اور عبدالہ بن زبیر رضی اللہ عنھم اجمعین) کو مسجد نبوی میں بلا کر یہ حکم دکھایا اور بیعت لینے کی کوشش کی۔ سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اگلے دن تک کا وقت مانگا اور اسی رات مدینہ چھوڑ کر مکہ کی جانب کوچ کیا۔ سیدناحسین رضی اللہ عنہ نے بیعت سے بچنے کی کوشش کی لیکن آپ کوبھی مدینہ چھوڑنا پڑا۔سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیعت کر لی تا کہ فتنے سے بچا جا سکے۔ 

یہاں سے وہ مزاحمت شروع ہوئی جو کربلا سے ہوتی ہوئی سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت پر اختتام پذیر ہوئی۔اصل مزاحمت تو کربلا میں ہی ختم ہو گئی تھی جب کہ سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت پر یہ معاملہ سرے سے ہی ختم ہو گیا۔

سیدناحسین رضی اللہ عنہ کے مکہ پہنچنے کی خبر عام ہوئی تو عراق سے خطوط آنے شروع ہو گئے جن میں یزید سے بے زاری اور آپ رضی اللہ عنہ سے وفاداری کا اظہار تھا۔ یہ ایک طویل داستان ہے جو کربلا اورسیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت تک جاری رہی۔

کربلا کے سفر اور اس میں ہونے والے سانحے کی تفصیلات عام طور پر دستیاب ہیں .
 اس حوالے سے دو رائیں ہیں 

۱۔ کربلا میں سیدناحسین رضی اللہ عنہ نے اپنی شرائط پیش کیں جن پر یزید کا لشکر( جس میں بڑی تعداد میں اہلِ کوفہ شامل تھے) ان شرائط کو ماننے پر تیا نہ ہوا یہ شرائط مندرجہ ذیل بیان کی جاتی ہیں۔

الف:  مجھے چھوڑ دو کہ میں واپس چلا جاؤں۔

ب: مجھے چھوڑ دو کہ میں سرحدوں پر چلا جاؤں اور جہاد کروں۔

ج: مجھے چھوڑ دو کہ میں یزید کے پاس چلا جاؤں۔ بعض روایات میں اس شرط میں یہ اضافہ بھی ہے کہ میں اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں دے دوں۔

مگر یہ آخری شرط کسی طرح باور کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس معاملے پر ہی تو سارا اختلاف تھا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس ظلم کے خلاف ہی تو نکلے تھے ۔
اگر وہ یہ شرط رکھتے ہیں تو پھر یزید کے لشکر کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں کوئی قباحت نہیں تھی تجدید خود یزید کے ہاتھ پر ہو جاتی۔ پھر خود عبیداللہ بن زیاد کا طرز عمل کہ ہر صورت میں بیعت یا قتل کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے اس شرط کو مشکوک بنانے کے لیے کافی ہے۔

۲۔ دوسری رائے یہ ہے کہ کسی شرط کے پیش کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی اور سیدناحسین رضی اللہ عنہ اپنے خاندان کے مردوں سمیت کربلا میں شہید کر دیے گئے۔ یہ رائے زیادہ قرین قیاس ہے اور دیگر ذرائع سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ یزید کے لشکر کی جانب سے انتہائی اقدام اٹھانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے پاس اس کا حکم موجود تھا۔ اسی وجہ سے عمرو بن سعد کو لشکر کی امارت سے ہٹا کر شمر ذی الجوشن کو امیر بنایا گیا اور عبیداللہ بن زیاد نے اس کو براہ راست بیعت لینے یا قتل کے احکامات جاری کیے۔ باقی یزید کے دربار میں جو رد عمل ہوا اور سوگ منایا گیا اس کی حیثیت ایک سیاسی ڈرامے سے زیادہ نہیں ہے بعض دفعہ اس سے زیادہ بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔ خود عبیداللہ بن زیاد کا بیان موجود ہے 
کہ جب اس کو یزید نے مدینہ پر حملے کا حکم دیا تو اس نے کہا:
’’اللہ کی قسم یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اس (یزید) کے لیے نواسہ رسول کو بھی قتل کروں اور مدینۃ الرسول پر بھی حملہ کروں‘‘۔ خلیفہ بن خیاط نے اس کی تصریح کی ہے۔
 اس کے علاوہ سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو یزید نے سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں اپنی بیعت کرنے پر شکری کا خط لکھا اور اس میں سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو ملحد قرار دیا تو سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے جوابی خط میں یزید کو ہی ملحد قرار دیا اور سیدناحسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا براہ راست الزم یزید پر عائد کیا اور عراق سے آئے خطوط کے بارے میں بھی یزید کو ہی الزام دیا کہ یہ خط اس نے لکھوائے تھے تا کہ سیدناحسین رضی اللہ عنہ کو اکیلا کر کے بیعت لی جائے یا شہید کر دیا جائے۔ اس رائے کی قوت اور درستی ماننی پڑتی ہے۔

بعض حلقے اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ سب کچھ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر ہوا تھا۔ یہ کسی حد تک درست ہے مگر یہاں ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اسلام میں مذہب اور سیاست ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور یہ بنی اسرائیل میں بھی ایسے ہی تھا۔ اس لیے کہ اسلام کی اصل سیاست ہے اور اس سیاست کی وجہ سے ہی اس کا غلبہ صدیوں تک قائم رہا ہے۔ 
تو اگر حسین رضی اللہ عنہ اپنی امارت یا خلافت کی جانب دعوت دیتے اور لوگ اس کو قبول کر لیتے تو بھی اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں تھی کیونکہ اس کی بنیاد مسلمانوں کے مشورے پر ہی ہوتی ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے سیاسی حکمتِ عملی اور اس کی نفوذ پذیری ثابت ہوتی ہے۔
 ہاں جو لوگ اس جنگ کو ’’دو شہزادوں کی جنگ قرار دیتے ہیں‘‘ان کی ذہنی حالت پر سوچنا پڑتا ہے کیونکہ یہ کسی طرح سے دو شہزادوں کی جنگ نہیں تھی۔ واقعات اس رائے کے بالکل خلاف ہیں۔

صورت حال یہ تھی کہ یزید کی جانب سے بیعت لینے کی عجلت اور اس پر سختی نے نا صرف اہلِ مدینہ کو بھڑکا دیا بلکہ اہلِ عراق کو بھی موقع فراہم کر دیا کہ وہ اپنی پرانی شرارتوں پر آمادہ ہو جائیں۔

 کربلا میں کیا ہوا یہ اتنا اہم نہیں ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ اس واقعے کے نتائج کیا ہوئے۔چونکہ ایک مسلسل تحریک موجود تھی جو حجاز سے عراق تک پھیلی ہوئی تھی ،
اس لیے عراق میں اہل کوفہ کی بد عہدی کے با وجود مکہ اور مدینہ میں مزاحمت جاری رہی یہاں تک کہ اہلِ مدینہ نے کھلی بغاوت کی اور یزید کی افواج نے مدینہ پر حملہ کر کے اس کے تقدس کو پامال کیا۔ پھر مکہ پر حملہ کیا اور حرمِ کعبہ پر سنگ باری کی۔ اپنے نتائج کے اعتبار سے یزید کے وہ جرائم جو روافض بڑے سوز و غم سے بیان کرتے ہیں کچھ بھی نہیں ہیں جو اس سے اصل میں سرزد ہوئے۔

۱۔ خلافت پر زبردستی قبضہ:اس طرح اس نے بعد میں آنے والوں کے لیے ایک بری مثال قائم کر دی اور مسلمانوں کا ایک بنیادی حق غصب کر لیا۔

۲۔ حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو مدینہ چھوڑنے پر مجبور کرنا۔

۳۔ کوفہ کے لوگوں سے سیدناحسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھوانا تا کہ وہ مکہ چھوڑ کر کوفہ آ جائیں۔ (اس کی تصریح سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے خط میں موجود ہے ،جو یزید کے نام ہے اور ابن کثیر نے اس کو نقل کیا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ اس پر اعتبار نہ کیا جائے۔ سیاسی وجوہات بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں)۔

۴۔ سیدناحسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اور ان کے ساتھ تمام بالغ مردوں کا قتل۔

۵۔ مدینہ منورہ پر حملہ اور اس کی حرمت کو پامال کرنا۔

۶۔ مکہ مکرمہ پر حملہ اور حرم کعبہ پر سنگ باری کا حکم دینا۔

ان میں سے ایک دو معاملات کو تو غلطی کہا جا سکتا ہے مگر حق یہ ہے کہ ایک کے بعد ایک جرم ہوتا جائے اور ہم اس کو غلطی کہیں تو یہ انصاف نہیں ہے۔  

اپنی نوعیت کے اعتبار سے سیدناحسین رضیاللہ عنہ کی خلافت کو بچانے کی کوشش آخری کوشش تھی اس کے بعد ایسا ماحول بن گیا کہ سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اگرچہ اپنی خلافت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے
 مگر آپ رضی اللہ عنہ کو اس خلافت کو استحکام دینے کی مہلت نہ مل سکی۔ 
یہ بھی طے نہ ہو سکا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے بعد جا نشینی کا معیار کیا ہو گا اور یہ جانشینی کیسے وقوع پذیر ہو گی۔ اس پورے معاملے کا ماحصل یہ ہے کہ خلافت کو اپنے منہج پر کیسے قائم رکھا جائے۔ 
سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے پیچھے یہی ذہنیت کارفرما تھی کہ مسلمانوں کے مرکز کو توڑا جائے مگر یہ کوشش خود سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے طرز سیاست کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکی ۔
ان کی اپنی سلطنت پر گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کی نرم مزاجی بھی باغی قوتوں کو چھ سال بعد نظر آئی۔ پھر اسی کوشش کو آگے بڑھاتے ہوئے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا اور مرکز کی تقسیم کے کچھ آثار نمایاں ہونے لگے۔ 

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سارا دور انہی معاملات کو سلجھانے میں گزر گیا۔ 
سیدناحسن رضی اللہ عنہ نے سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تسلیم کر کے اس کوشش کو بے اثر کر دیا۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت اگرچہ جمہور کی جانب سے خلافتِ راشدہ تسلیم نہیں کی گئی، مگر اس کو خلافت ضرور تسلیم کیا گیایہ ملوکیت نہیں تھی۔ 
ان کے بعد یزید نے مسلمانوں کے معاملات پر زبردستی قبضہ کر کے خلافت کو ملوکیت میں بدل دیا۔ اگرچہ اس کی اولاد تو خلیفہ نہیں بن سکی مگر بعد میں بنی مروان، بنی عباس اور عثمانی خلفانے اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’ملوکیت نما خلافت ‘‘کو برقرار رکھا۔علما اصولی طور پر اس کو خلافت راشدہ قرار نہیں دیتے بلکہ وہ اس خلافت کو ایک مرکزی ادارے کے قیام کے طور پر دیکھتے ہیں جو مسلمانوں کے معاملات کا ذمہ دار تھا۔ یہاں نہ تو مسلمانوں کا امیر ان کا ایک فرد تھا نہ ہی درست طریقے سے قرآن  و سنت کے مطابق یہ نظام چلایا جا سکا۔ آخری دور میں تو معاملات بالکل ہی اُلٹ گئے اور خلافت کا ادارہ بھی ختم ہو گیا۔ 

جب بھی یکم محرم سے دس محرم کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے گی تو اس کا ایک ہی سبق نظر آئے گا کہ یہ در حقیقت مسلمانوں کے معاملات پر قبضہ کرنے کی کوشش ہو رہی تھی جس میں منافقین مدینہ سےلےکر حواریین ِیزید تک سب ہی اپنے اپنے وقت پر ذمہ دار تھے۔ کیونکہ یہ معاملات پچاس سال سے زائد عرصے پر پھیلے ہوئے ہیں اس لیے کسی ایک شخص پر اس کی ذمہ داری ڈالنا ممکن نہیں مگر آخری شخص جو اس کا اصل ذمہ دار تھا وہ یزید تھا۔

بعض محققین‘خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنے کی ذمہ داری سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ پر عائد کرتے ہیں مگر یہ درست نہیں ہے۔ جن حضرات نے یزید کی اس کوشش کے خلاف مزاحمت کی تھی ،وہ سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے اس قدم کو کسی طرح برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ ان حضرات کی موجودگی میں سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور انہوں نے معاملات کو چلایا مگر ان حضرات میں سے کسی نے بھی ان کےخلاف خروج نہیں کیا حتٰی کہ حجر بن عدی نے خروج کی کوشش کی تو اس کا ساتھ دینے کے لیے ان حضرات میں سے کوئی آگے نہیں بڑھا۔
 اگر یہ حضرات سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کو ملوکیت سمجھتے تو اس کے خلاف بھی ایسے ہی مزاحمت کرتے جیسے یزید کے خلاف کی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بعض معاملات میں رخصت پر عمل کرنے کے با وجود سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر ان حضرات میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ جب کہ یزید کی خلافت کو ان حضرات نے ایک دن کے لیے بھی تسلیم نہیں کیا۔ سوائے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے جنہوں نے فتنے سے بچاؤکے لیے یزید کی بیعت کی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ فتنے سے بچاؤکے لیے تھی تو کراہت سے ہی ہو گی خوش طبعی سے تو نہیں ہو سکتی۔

ہوا یہ کہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ( یکم محرم الحرام) سے خلافت کا منصب ایک بھنور میں پھنس گیا تھااور سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت اس کو منجدھار میں لے آئی، جہاں سے بڑی کوشش کے بعد اس کو نکال کر درست راستے پر ڈالا گیا یعنی سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت متفقہ طور پر قائم ہو گئی۔ 
( اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی خلافت حق نہیں تھی بلکہ وہ اپنے تمام عرصہ میں منجدھار میں ہی رہی) مگر بد قسمتی سے جن لوگوں نے اس خلافت کے امر کو درست راستے پر ڈالا تھا وہ بھی نئی خلافت کے معاملے میں درست راہ کا انتخاب نہ کر سکے اور خلافت کی اصل کو بچانے کی تمام کوششیں ضائع ہو گئیں ۔ 
شاہ اسمٰعیل شہید رحمہ  کے الفاظ میں :’’خلافت راشدہ جو اسلام کی بلند ترین منزل ہے وہ گر گئی اور اس کے دوبارہ بننے کی کوئی صورت بھی باقی نہ رہی‘‘۔یہ کربلا میں دس محرم کو پیش آیا ،باقی اس کا تتمہ ہے جو عباسی خلافت تک چلتا رہا لیکن اس کوشش کی حیثیت بنی امیہ کے مقابلے میں بنو فاطمہ یا بنی عباس کے استحقاق کی تھی۔ یہ کسی طرح سے بھی مسلم امت کے لیے خلافت کے منصب کو دوبارہ خلافت راشدہ کی طرز پر لے جانے کی کوشش نہ تھی ،جیسا کہ بنی عباس کی حکومت قائم ہوئی تو اصولِ حکومت کے سلسلے میں ان کا طرز ِعمل بنی امیہ کے حکمرانوں سے چنداں مختلف نہ تھا۔

یہاں ایک غلط فہمی درست کردینا ضروری ہے۔ سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں میں ملوکیت کے جاری کرنے کے ذمہ دار ہیں مگر در حقیقت ایسا نہیں ہے بلکہ یہ یزید ہے جو اس ملوکیت کے جاری ہونے کا اصل ذمہ دار ہے۔ 
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نے ولی عہدی کی تمام بحث اپنی وفات سے دس سال پہلے ہی ختم کر دی تھی۔ سوا اس بد گمانی سے بچنا ضروری ہے۔ اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

(یہ مضمون واقعات کے سلسلے اور اخذ کردہ نتائج پر مشتمل ہے اور اسلامی حکمرانی کی ہئیت بدلنے کی وجوہات پر بحث کی ایک کوشش ہے جو عام طور پر غلط سمت میں چلی جاتی ہے۔ اگر اس میں کچھ درست ہے تو وہ اللہ کی جانب سے اس نا چیز پر کرم ہے اور کچھ غلط ہے تو وہ اس نا چیز کی کم علمی و کج فہمی کی وجہ سے ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ دامان ِصحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کو چھیڑے بغیر واقعات کا تجزیہ کیا جائے۔ اگرچہ یہ ایک وسیع موضوع ہےاور اس پر کام کے حوالے سے ہمارا دامن  علم بالکل خالی ہے ،اللہ کرے کہ کوئی صاحبِ علم بزرگ اس موضوع کی خدمت کے لیے آمادہ ہو جائیں تو تاریخ کی بہت سی غلط بیانیوں کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔  "ابوعمارہ عفی عنہ "

Share Wale Button say WhatsApp , Facebook , Twitter , Google+ Par Share Karen

    Choose :
  • OR
  • To comment
No comments:
Write comments

Old Copy Sites
http://www.raahehaq313.wordpress.com
http://raahehaq313.blog.com