محرم کی فضیلت ،مسائل ، بدعات اور رسومات

 


ذرا سوچئے اور غور کيجئے يہ کیسا سوگ ہے

کہ جس میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہو اور اس میں اتنی وعید ہو کہ اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھنے کے عقیدہ کو (جو کہ ایمان کی بنیاد ہے ) اس کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا ہو؟

اس تفصیل کی روشنی میں وہ حضرات اپنا جائزہ لیں جو محرم میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے غم میں مختلف من گھڑت رسمیں اور سوگ کرتے ہیں اور يہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ہم تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی یاد میں يہ سوگ کرتے ہیں جبکہ شریعت مطہرہ نےکسی ايسے دن یا مہینہ کے منانے کے اجازت نہیں دی جو اس طرح کے رنج وغم کے اظہار یا رونے دھونے کے مظاہرہ کے لئے مخصوص ہو، بلکہ اسلام میں کسی بڑے سے بڑے آدمی کی موت و حیات یا شخص حالات کو مقصود و بنیاد بنا کر غمی وخوشی کو کوئی دن منانے کا تصور نہیں ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ اگرچہ انتہائی المناک ہے مگر لوگوں کے ذہنوں میں يہ غلط بات بیٹھی ہوئی ہے کہ دنیا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اور کوئی سانحہ پیش نہیں آیا حالانکہ دنیا میں اس سے بدرجہا زیادہ مظلومیت کے بے شمار انوہناک واقعات ہیں۔ اور اسلام میں اگر يہ غم کے دن منانے کی رسم چلے تو ايک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ انبیاءکرام ہیں جن کی پیدائش سے لیکر شہادت اور وفات تک دنیا میں پیش آنے والے مصائب وتکالیف کی ايک لمبی فہرست ہے، قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں سینکڑوں واقعات انبیا ء کرام کے مصايب و تکالیف سے متعلق موجود ہیں۔

نوح کا قصہ ہو یا ابراہیم کا،یعقوب کا ہو یا موسی کا ، یونس کا ہو یا لوط علیہم السلام کا، ہر ايک واقعہ تکلیفوں کے بے شمار انبار نظر آئیں گے۔انبیاء کے بعد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی حیا ت طیبہ کو ديکھا جائے تو آپ کی زندگی کاکوئی دن نہیں ہر گھنٹہ اور ہر ساعت ولمحہ دنیا کی خاطر تکلیفوں، امت کے دوروغم اور آخرت کی فکر میں مصروف نظر آئے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ وہ ہیں جن میں سے ہر ايک در حقیقت رسول اﷲ کا زندہ معجزہ ہے ۔ اور يہ سلسلہ چل پڑے تو پھر صحابہ کرام کے بعد امت کے اکابر ،اولیاءاﷲ، علما و مشائخ پر نظر ڈالی جائے جو کروڑوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہےں۔ ان حضرات کو دین کی خاطر پیش آنے والے مصائب ، تکالیف اور مشقتوں کا ايک طویل باب ہے جن کو سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔اوراگر يہ طے کر لیا جائے کہ سبھی کے یاد گاری دن منائے جائیں تو سال بھر میں ايک دن بھی یاد گار منانے سے خالی نہیں رہے گا بلکہ ہر دن کے ہر گھنٹہ میں کئی کئی یادگاریں منانی پڑیں گی ؟

ان کی یا دگار اصل يہی ہے کہ ان سے عبرت اور سبق حاصل کرکے اپنی آخرت کی تیاری کی جائے

 ----------------

محرم کے بدعات اور رسومات

 

ماہِ محرّم میں بالخصوص بر صغیرپاک وہند میں لوگ محرم کامہینہ شروع ہوتے ہی ایسے اعمال کرتے ہیں جو سراسر اسلام کے خلاف ہیں مثلاً

تعزیہ بنانا

سیاہ لباس پہننا ،

سیاہ جھنڈے بلند کرنا ،

مجالس شہادت منعقد کرنا ،

نوحے اور مرثیئے پڑھنا ،

چُولہے اوندھے کردینا ،

عورتوں کا بدن سے زیورات اُتاردینا ،

ماتمی جلوس نکالنا ،

زنجیروں اور چھریوں سے خود کو زخمی کرنا ،

تعزیئے اور تابوت بنانا ،

پانی کی سبیلیں لگانا ،

کھچڑا پکانا ،

عاشوراء محرّم کے دوران خوشی کی تقاریب شادی وغیرہ نہ کرنا اور

شہادت کا سوگ ہر سال منانا وغیرہ

شرعی اعتبار سے سو گ کرنا صرف چند صورتوں میں عورتوں کے حق میں ثابت ہے اور وہ يہ ہیں:

(1)جس عورت کو اس کے شوہر نے طلاق بائن (ایسی طلاق جس میں نکاح ختم ہوجاتا ہے) دیدی ہو اس پرعدت کے زمانہ میں سوگ کرنا واجب ہے ۔عدت ختم ہونے کے بعد واجب نہیں بلکہ جائز بھی نہیں۔

(2)جس عورت کا خاوند فوت ہوگیا ہو اس پر عدت کے زمانہ میں سوگ کرنا واجب ہے عدت کے بعد واجب نہیں بلکہ جائز بھی ۔

(3)شوہر کے علاوہ کسی قریبی رشتہ دار(باپ بيٹے وغیرہ) کے فوت ہونے پر صرف تین دن تک عورت کو سوگ کرنے کی اجازت ہے واجب اور ضروری نہیں تین دن کے بعد يہ اجازت بھی نہیں۔

اس کے علاوہ اورکسی موقعہ پر عورت کو سوگ کرنے کی اجازت نہیں اورمرد کو تو سوگ کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں اور شرعی سوگ کاطریقہ يہ ہے کہ عورت اتنے عرصہ میں ایسے کپڑے نہ پہننے اور ایسا رنگ ڈھنگ اختیار نہ کرے جس سے مردوں کو کشش اور میلان ہوتا ہو۔ خوشبو ، سرمہ، مہندی اور دوسری زیب و زینت اور بناؤ سنگھار کی چیزیں چھوڑدے۔ اس کے علاوہ اپنی طرف سے سوگ کے طریقے اختیار کرنا جائز نہیں مثلاً غم کے اظہار کےلئے مخصوص رنگوں کے (مثلا کالے) کپڑے پہننا وغیرہ۔

حدیث: حضرت ام سلمہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نقل کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جس عورت کا شوہر وفات پاگیا وہ عدت گزرنے تک عصفر سے رنگا ہوا اور خوشبو والی مٹی سے رنگا ہوا کپڑا اور خضاب بھی نہ لگائے اور سرمہ نہ لگائے۔ (مشکوة ص289بحوالہ ابوداود، نسائی )

حدیث: حضرت ابو سلمہ کی صاحبزادی حضرت زینت نے بیان فرمایا کہ جب ام المومنین حضرت ام حبیبہ کو(ان کے والد) حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی موت کی خبر پہنچی تو انہوں نے تیسرے دن خوشبو منگائی جو زردرنگ کی تھی اور اپنے بازروں اور رخساروں پر ملی اور فرمایاکہ مجھے اس کی ضرورت نہ تھی (لیکن اس ڈر سے کہ کہیں میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنے والی عورتوں میں شمار نہ ہو جاﺅ میں خوشبو لگائی ) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہو ئے سنا ہے کہ ” ایسی عورت کے لئے جو اﷲ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو يہ حلال نہیں ہے (کسی کے فوت ہونے پر) تین دن رات سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کے کہ اس (کی موت ہو جانے) پر چار مہینہ دس دن سوگ کرے ( صحيح مسلم

 ---------

محرم کی فضیلت

 

 

کسی وقت، کسی دن یا مہینہ کو عظمت وفضلیت حاصل ہونے کی اصل وجہ اﷲ تعالی کی خاص تجلیات، انوار و برکات اور رحمتوں میں متوجہ اورظاہر ہوناہے، (لیکن بعض اہم واقعات کا اس وقت میں واقع ہوجانا بھی دوسرے درجہ میں فضلیت کا باعث ہو جاتا ہے جیسا کہ رمضان میں قرآن مجید کا نازل ہونا اور شب قدر وغیرہ کا واقع ہونا وغیرہ) اور فضلیت حاصل کرنے کا طریقہ(اصولی یا جزوی طریقہ پر) وحی کے ذریعہ سے ہی معلوم ہوسکتا ہے، اپنی طرف سے کسی دن یا تاریخ میں خاص فضلیت کی بنیاد اپنی طرف سے کسی اور چیز کو قرار دے دینا یا فضلیت حاصل کرنے کاکوئی خاص طریقہ اپنی طرف سے متعین کر لینا يہ تمام چیزیں ناجائز، گناہ اور شریعت پر زیادتی ہیں۔

لہٰذا جو لوگ يہ سمجھتے ہیں کہ محرم کے مہینے یا دس محرم کے دن کی فضلیت حضرت حسین کی شہادت کی وجہ سے حاصل ہو ئی وہ لوگ غلطی میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ اس مہینہ کی فضلیت تو کربلا کے واقعہ سے بہت پہلے آسمان وزمین کی پیدائش سے ہی چلی آرہی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس وقت کربلا کے واقعہ کا نام ونشان بھی نہیں تھا۔ اسی طرح دس محرم کے دن کی فضلیت بھی بہت پہلے سے چلی آرہی ہے۔ يہاں تک کہ يہودونصاریٰ اور قریش مکہ بھی اس دن کی عظمت و فضلیت کے قائل تھے۔ حضور نے دس محرم کے روزے کے فضائل بیان فرمائے اور ظاہر ہے کہ اسو قت تک کربلا کا واقعہ پیش نہیں آیا تھا،البتہ يہ کہا جائے گا کہ خود حضرت حسین کی شہادت اس مہینے اور اس دن میں اسلئے واقع ہوئی کہ يہ مہینہ اور دن فضلیت کا تھا ، اﷲ تعالیٰ نے اس مقدس مہینے کے اس مبارک دن کواپنے مقبول بندے حضرت حسین کی شہادت کے واسطے منتخب فرما دیا غرضیکہ اس دن کو حضرت حسین کی شہادت کی وجہ سے کوئی فضلیت حاصل نہیں ہوئی

*******

کیا محرم غم کا مہینہ ہے؟

 

 

بعض نا واقف لوگ ایسے بھی ہیں محرم کے مہینے کو رنج وغم کا مہینہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مہینہ میں کربلا کا سانحہ پیش آیا تھا جس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور دوسری عظیم ہستیوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا تھا لہٰذا يہ مہینہ غم کا ہے اور اسی وجہ سے يہ لوگ اس مہینے میں خوشی کے کام (شادی بیاہ وغیرہ) انجام دينے سے پرہیز کرتے ہیں اور بعض لوگ خوشی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہوئے مختلف قسم کے سوگ کرتے ہیں (مثلاً کالا لباس پہننا، عورتوں کا زیب وزینت اور بناﺅ سنگھار چھوڑ دینا، میاں بیوی کے خصوصی تعلقات سے رکے رہنا، مرثيے پڑھنا، نوحہ ، ماتم کرنا وغیرہ وغیرہ)

اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو يہ سمجھ لینا چاہیے کہ يہ خیال بالکل غلط ہے کہ يہ مہینہ غمی کا ہے کیونکہ يہ مہینہ تو بہت محترم اور فضلیت بلکہ عبادت والا مہینہ ہے اور دس محرم کے دن، تاریخ اسلام کے بہت بڑے عظیم اور خوشگوار واقعات رونما ہوئے ہیں اور دوسری بات يہ ہے کہ غمی کا واقعہ پیش آنے سے وہ مہینہ یا دن غم کےلئے مخصوص نہیں ہو جاتا کہ اس میں ہمیشہ غم کیاجاتا رہے اور صدیاں گزرنے کے باوجود اس کو غم کا مہینہ بنائے رکھنا تو بہت بڑی حماقت ہے ۔۔

بعض لوگ اس مہینہ کو نحوست کا مہینہ سمجھتے ہیں۔زمانہ جاہلیت میں لوگ بعض دنوں بعض تاریخوں اوربعض جانوروں یا انسانوں میں نحوست سمجھتے تھے خاص کر عورت، گھوڑے اور مکان میں نحوست کا زیادہ اعتقاد رکھتے تھے اور آج کل بعض مہینوں (مثلاً محرم ،صفر وغیرہ) اور بعض دنوں، تاریخوں اور جگہوں میں نحوست سمجھی جاتی ہے خاص طور پر جس تاریخ یا جس جگہ میں کوئی حادثہ ، ہلاکت یا کوئی نقصان اورغمی کا واقعہ پیش آجائے اس کو منحوس سمجھاجاتا ہے ،اور واقعہ کربلا کے محرم کے مہینہ میں پیش آجانے کی وجہ سے اسی بنیاد پر محرم کے مہینہ کو بہت سے لوگ منحوس خیال کرتے ہیں يہاں تک کہ جو بچہ محرم کے مہینہ میں پیدا ہوجائے اس کو بھی منحوس خیال کیا جاتا ہے ۔ جبکہ اسلام کے اصولوں اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہے کہ کوئی زمانہ یا دن تاریخ اپنی ذات میں منحوس نہیں ہے،غمی کا واقعہ پیش آنے سے زمانہ منحوس نہیں بن جاتا ، اور زمانہ تو اﷲ تعالیٰ کی مخلوق ہے اس کی طرف نحوست یا برائی منسوب کرنا گناہ ہے احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ ايک حدیث قدسی میں ہے :۔

نبی کریم سے مروی ہے کہ اﷲ تعالی فرماتے ہیں کہ بنی آدم مجھے ایذاء دیتا ہے ( یعنی میری شان کے خلاف بات کہتا ہے اور وہ اس طرح) کہ وہ زمانہ و برا بھلا کہتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہوں (یعنی زمانہ ميرے تابع اور ماتحت ہے) میرے قبضہ قدرت میں تمام حالات اور زمانے ہیں میں ہی رات ودن کو پلٹتا(کم زیادہ کرتا) ہوں ۔

(بخاری، مسلم، ابو داود، موطا امام مالک، مشکوة ص13)

**************

 

ماہ محرم کاروزہ

ماہ محرم کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس مہینے کاروزہ رمضان کے بعد سب سے افضل ہے او اس مہینے کو حضرت محمدﷺ نے اللہ تعالی کامہینہ قراردیاہے۔یو توسارے ہی دن اور مہینے اللہ تعالی کی طرف نسبت کرنے سےاس کاشرف اورفضیلت ظاہرہوتی ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺکے پاس بیٹھاہواتھا ایک صاحب نےآکر پوچھاکہ یا رسول اللہﷺ!رمضان کے مہینے کہ بعدکس مہینےکےروزے رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر رمضان کے مہینے کے بعد تم کوروزہ رکھناہوتومحرم کاروزہ رکھواس لئے کہ یہ اللہ کامہینہ ہے۔اس میں ایک دن ہے جس مین اللہ تعالی نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اوردوسرے لوگوں کی توبہ بھی قبول فرمائیں گے۔ترمذی نے اس کو روایت کیا اور اس کو حسن بتایا۔جلد۱،صفحہ۱۵۷)لیکن اس روایت میں ضعف ہے۔جس قوم کی توبہ قبول ہوئی وہ بنی اسرائیل ہے۔عاشوراء کے دن اللہ تعالی نےموسی علیہ السلام کو بنی اسرائیل کےساتھ فرعون اوراس کےلشکر سے نجات دی۔اس کی تصریح آنے والی ہے۔اس دن کی وجہ سے اس مہینہ میں فضیلت آگئی۔بعض علماء کے نزدیک محرم سے مراد اس کا خاص دن یعنی دسویں تاریخ عاشوراء ہے۔تو ان کے نزدیک ان حدیثوں سے صرف یوم عاشورہ کے روزہ کی فضیلت ثابت وگی نہ کہ پورے مہینے کی۔

عاشورہ(دسویں محرم) کاروزہ

دسویں محرم کادن اسلامی تاریخ میں ایک بڑا محترم دن ہے۔اس دن میں آں حضرت محمدﷺ نے روزہ رکھا تھا۔ اور مسلمانوں کوروزہ رکھنے کا حکم بھی دیا ہے۔ پہلے تویہ روزہ واجب تھا پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو مسلمانوں کواختیار دےدیاگیا کہ چاہیئے یہ روزہ رکھیں یانہ رکھیں۔ البتہ اس کی فضیلت بیان کردی گئی کہ جو روزہ رکھے گا اس کے ایک سال گذشتہ کے گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔پہلے یہ روزہ صرف ایک دن کا رکھاجاتاتھا لیکن آخر میں حضرت محمدﷺنے فرمایا کہ اگرمیں زندہ رہا تو انشاءاللہ نویں محرم کو بھی روزہ رکھوں گا پھر آپ ﷺ کا وصال ہوگیا۔ (اناللہ واناالیہ راجعون) اس لئے یہ روزہ دودن رکھنا چاہئے۔ نواور دس کو اور دس یا گیارہ کو۔ بعض کتابوں میں یہ روایت اس طرح بھی آئی ہے کہ ایک دن پہلے اورایک دن بعد۔ اس لئے اگر تین روزے رکھیں (۹/۱۰/۱۱) تو بھی بہتر ہے۔ البتہ دس کو صرف روزہ رکھنا بہتر نہیں بلکہ مکرہ تنزیہی ہے۔ یہ روزہ اس طرح شروع ہوا کہ حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرئیل کوفرعون اوراس کے لشکر سےاسی دن نجات ملی اس لئے موسی علیہ السلام نے شکریہ میں یہ روزہ رکھا اور یہود مین یہ روزہ چلتارہا۔ یہود سے قریش نے سیکھا۔ قریش مکہ مکرمہ میں یہ روزہ رکھتے تھے حضورﷺ نے بھی یہ روزہ رکھا تھا۔ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود یہ روزہ رکھتے ہیں۔پوچھاگیا کہ کیوں یہ روزہ رکھتے ہو؟ یہود نے بتایا کہ اس لئے کہ اللہ تعالی نے ہم کو اس دن فرعون سے نجات دی۔آپ ﷺنےفرمایا کہ ہم تم سے زیادہ موسی علیہ السلام کے حقدار ہیں۔ اس لئے آپ ﷺ نے یہ روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی رکھنے کا حکم دیا۔ اور شروع شروع میں آپ ﷺاہل کتاب سے موافقت کو پسند کرتے تھے پھر بعد میں مخالفت کا حکم ہوا تو فرمایا کہ اگرزندہ رہا تونویں کو بھی روزہ رکھوں گا تا کہ مخالفت ہوجائے اس لئے صرف دس کو روزہ رکھنا فقہائے کرام نے مکروہ تنزیہی قراردیا۔ (درمختارجلد۲ِصفحہ ۹۱مع ردالمختار

    Choose :
  • OR
  • To comment
No comments:
Write comments

Old Copy Sites
http://www.raahehaq313.wordpress.com
http://raahehaq313.blog.com